Fursat Nahi Samjhne Ki
فرصت نہیں سمجھنے کی
پاکستان بننے سے لیکر آج تک ہم ایک ہی الجھن میں ہیں، ہماری کون سی سیاسی پارٹی ہمارے لیئے بہتر ہے ہم ہر پانچ سال بعد نئے چہرے اور نئے کردار اپنے اوپر اس امید سے مسلط کرتے آئے ہیں کہ شاید یہ بہت اچھا ہے۔ ہم نے چہرے بدلے ہیں نظام کو نہیں بدلا۔ چہرے بدلتے تھے اور ان کے دل ودماغ اور سوچ وہی تھی ہم سیاست دان بدلنے میں مصروف ہیں اور سیاست دان ایک دوسرے کو بدلنے میں مصروف ہیں نہ ان کے پاس وقت ہے ملک کیلئے اور نہ ہمارے پاس وقت ہے انہیں سمجھنے کیلئے۔
ہم روٹی کپڑا اور مکان کے چکر میں ہیں اور وہ پارٹی کی قیادت اور وفاداری وزارتوں کے حصول اور پارٹی کی بقا کے چکر میں ہیں۔ ہم بہت ہی کامل ایمان والے ہیں ملک کی بقا ہم نے خدا پے چھوڑی ہے، غریبوں کا بھی خدا حافظ اور ملک کا بھی خدا حافظ۔
لوگ اپنے خاندانوں کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں اور سیاست دان پارٹی کے مستقبل کیلئے ہم نے پارلیمنٹ، اسمبلی اور میڈیا میں بھی صرف اور صرف پارٹی کی وفاداری پے بات کرنی ہے اور اگر وزارت نہ ملی تو پارٹی بدل دینی ہے اور ہم کہاں کچھ کر سکتے ملک ہمارا تھا ہی ایسا تقسیم کے وقت ہمیں ملا ہی کیا تھا اور عوام کو حاصل وہی ہونا ہے جتنی وہ محنت کریں گے۔ اب اگر پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہم بھی تو اتنے ہی فیول کے پیسے دیتے ہیں جتنے عوام دیتی ہے یہ الگ بات ہے وہ اپنی جیب سے دیتے ہیں اور ہم ان کی جیب سے دیتے ہیں۔
پارٹی کی بقا کی خاطر پارٹیاں اکٹھی ہوتی ہیں پھر اقتدار حاصل کرتے ہیں پھر وزارتیں بانٹی جاتی ہیں وزارتیں ایسے بانٹی جاتی ہیں جیسے ان کے باپ کی وراثت ہو۔ کچھ ممبران کے ساتھ سوتیلے بیٹے کے جیسا سلوک ہوتا ہے پھر اس سوتیلے کی ناراضگی اور منانے میں پانچ سال گزرنے نہیں پاتے کہ تاک میں بیٹھے محب وطن جاگ جاتے ہیں اور پھر سے اقتدار کا بٹوارا شروع۔
پھر سے غداری کے الزام اور حب وطنی کے دعوے اور پھر سے روٹی کپڑا اور مکان لیکن اب سڑکوں کے وعدے کیے جاتے ہیں لوگ غلط سمجھتے ہیں انہیں سڑکیں بنانے نہیں سڑکون پے لانے کے وعدے کئے جاتے ہیں اور لوگوں کے پاس سڑکوں پر آنے کا وقت نہیں۔
چور سپاہی کا بھیا نک سیاسی کھیل ہے اس کے پیچھے دشمن کی سازش ہے ہماری بیوقوفیاں ہیں حرص وحوس ہے یا خدا کی ناراضگی ہم نہیں جانتے کیوں کہ ہمارے پاس فرصت ہی نہیں ہے ہم تو کام میں اتنے مصروف ہیں کہ نماز کی بھی فرصت نہیں ملتی۔
کوشش تو ہر پارٹی کرتی ہے وہ کون سی پارٹی ہے جس کے ممبران کو غدار نہیں کہا گیا لیکن غداری کا دھبہ لگنے کے باوجود بھی وہ ملک کی خدمت میں مگن ہیں اتنے بڑے لوگ ہونے کے باوجود ملک ہے کہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے بلکہ نیچے ہی جا رہا ہے شاید کوئی نظر بد لگ گئی ہے یا کوئی ٹونا کر رہا ہے۔
بس اسی کشمکش میں ہم نے 75 سال گزار دئے۔ بد اخلاق ہم، چور ہم، رشوت خور ہم، ہمارے محافظ پولیس اہلکار چوک پر کھڑے ہو کر چائے کے پیسے مانگتے ہیں ساتھ کھڑا بھیکاری اسے حسرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے صرف لباس کا فرق ہے، دینے والا سوچتا ہے کہ لٹیرے کو لٹیرے مل گئے ہیں پھر کس کی مجال ہے کہ ملک سنوارے۔
ٹیکنالوجی سے ہزاروں میل دور کمپیوٹر کورس کرکے نیرو جینز پہن کر نئی کمپنی کے نئے ماڈل کے موبائل فون میں ٹک ٹاک کیلے ویڈیو بناتا ہوا نوجوان سوچتا ہے شائد وہ بہت بڑی توپ بن گیا ہے، تو کون ٹھیک کر پائے گا اس کی سوچ۔ سوچ بدلے گی تو ہم بدلیں گے ہم بدلیں گے تو نظام بدلے گا نظام بدلے گا تو ملک سنورے گا۔
سب سے پہلے اپنی اخلاقیات پر توجہ دینا ضروری ہے حالانکہ ہم مسلمان ہیں اسلامیات پڑھنے کے بعد اخلاقیات کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن ہمارے پاس اسلامیات پڑھنے کی فرصت نہیں ہے افسوس صد افسوس۔
جس روز ہم لوگ اسلام کو وقت نکال کر صحیح معنوں میں سمجھ لیں گے اس پر عمل کریں گے تب ہم وہ سب کچھ حاصل کر لیں گے جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں۔