Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb Ullah Khan
  4. Farsh Ke Khuda

Farsh Ke Khuda

فرش کے خدا

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

تکبر ایک بہت بڑا گناہ ہے یہ نعمتوں کی ذیادتی کے بعد جانے انجانے میں ہو جاتا ہے۔ انسان سوچتا ہے شائد یہ سب اسے اس کی محنت کی وجہ سے ملا ہے اور اس سب کو حاصل کر نے میں اس کا اپنا بہت بڑا کردار ہے اگر کوئی اچھی شکل وصورت رکھتا ہو یا کوئی اچھی جاب ہو اچھا بزنس ہو اعلی عہدہ یا اقتدار ہو یا بہت سارے بیٹے ہوں بہت بڑا جاگیر دار ہو یہ سب خدا کی طرف سے دیا گیا ہوتا ہے اس میں کسی کا کوئی کردار نہیں ہوتا خدا بہت ذیادہ دے کر آزماتا ہے، شکر کرنے والے آگے نکل جاتے اور نا شکرے اور متکبر اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔

ابلیس اپنے تکبر کی وجہ سے شیطان بنا کیونکہ اس نے آدمؑ کو اس لئے سجدہ نہیں کیا کہ یہ تو مٹی سے بنا ہے اور میں تو آگ سے بنا ہوں لہذا میرا رتبہ ذیادہ ہے۔

ابلیس کا واقعہ صرف کہانی نہیں ہے یہ ایک سبق ہے قرآ ن پاک ہمارے لئے ہدایت و راہنمائی کیلئے ہے ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اگر آج اس سبق پر ہم سب سختی سے عمل کریں اپنے تکبر بھرے لہجے اور رویے بدلیں دوسروں کو غریب اور کمزور سمجھ کر ان سے کنارہ کشی کر نے یا ان کی تذلیل کرنے کی بجائے ان کو سنیں ان کو وقت دیں تو یہ دھرتی جنت بن جائے گی۔ متکبر شخص احساس برتری کا شکار ہوتا ہے ماہر نفسات احساس برتری کو ایک بیماری تصور کرتے ہیں۔

سنجے دت کی ایک انڈین فلم میں اسے گا ندھی جی دکھائی دیتے ہیں سنجے جب ان سے اپنے دشمنوں کے بارے میں بات کرتا ہے تو گاندھی جی اسے سمجھاتے ہیں کہ اس کے دشمن بیمار ہیں وہ ان کی تیمار داری کرے وہ روزانہ ان کیلے پھول لے کر جاتا ہے آخر کار وہ لوگ سنجےکے دوست بن جاتے ہیں۔

ہم سب شاید بیمار ہیں تکبر کا شکار ہیں۔ ٹک ٹاک کا ایک ٹاپ ٹرینڈ ہیں شریکوں اور دشمنوں کو مخاطب کر کے فضول کی بڑکیں مارنا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر کوئی دشمن نہ بھی ہو تو بھی بن جاتا ہے۔

الفریڈ ایڈلر کے انفرادی نفسیات کے نظریہ کے مطابق ہر کوئی احساس کمتری پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہےاور احساس برتری احساس کمتری کے گہرے احساس کا رد عمل ہوتا ہے، اور انسانی بدسلوکی چار بنیادی انسانی ضروریات میں سے ایک کو پورا نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے جن میں طاقت، توجہ، انتقام، یا نا کامی سے بچنے کیلئے خود کو طاقتور ثابت کرنے کیلئے دوسروں سے بدسلوکی کرنا توجہ حاصل کرنے کیلئے کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں یا پھر انتقامی کاروائی کے لیئے دوسوں سے بد سلوکی کرنا۔

دوسروں سے بد سلوکی کی یہ تو تھیں وجوحات اس سارے عمل کے پیچھے ہوتا ہے ایک احساس جسے احساس برتری کہا جاتا ہے۔ اگر ہم احساس برتری ختم کر کے نارمل ہو جائیں تو دوسروں سے بد سلوکی نہیں ہوگی اور تکبر سے بھی بچا جا سکے گا۔

احساس برتری کا شکار انسان ظاہری شکل پر بہت ذیادہ توجہ دیتا ہے خود کو خلائی مخلوق سمجھ کر متکر بن جاتا ہے گھمنڈ بھرے دعوے کرتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اپنی ذات کے بارے میں بہت ذیادہ رائے دیتا ہے اور دوسروں کو سننے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔

اللہ پاک ہم سب کو اس بیماری اور گناہ سے محفوظ رکھے اور ہم اس سے محفوظ تب ہونگے جب ہم اس سے بچنے کی کوشش کریں گے اور جب ہم کوشش کریں گے کہ ہم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے تو اللہ تعالی کی طرف سے مدد بھی ملے گی یوں ہم نہ صرف دوسروں کو تکلیف سے محفوض رکھیں گے بلکہ خود کو بھی تباہ ہونے سے بچا لیں۔

اگر ہم اپنے تندخو مزاج اور تلخ رویئے پر قابونہیں رکھیں گے تو نہ صرف دوست اور رشتہ دار کھو دیں گے خدا کی نا راضی کا بھی سبب بنے گا یہ رویہ۔

کبھی کبھی ہم لوگ دوسروں کے گلے شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا وہ ایسا ہے تو اس کے پیچھے بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اچھا ہوں وہ برا ہے یہ بھی تو تکبر ہے۔ فرعون کے تکبر کا ڈھانچہ اس لیے محفوظ کیا گیا کہ ہم سبق سیکھیں اسی طرح کے فرعونوں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور ہمیں سبق دے رہی ہے۔

آئے ہیں کتنے سکندر تم سے پہلے بھی یہاں

کھا گئی ہے یہ زمیں اور کھا گیا ہے آسماں

کتنی طاقتور قومیں آئیں آج ان کا وجود نہیں ہے ان کی مثالیں ہمارے سجھنے کیلئے قرآ ن پاک میں موجود ہیں، اللہ پاک ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق دے۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani