Aik Nazar Shehar Karachi Par
ایک نظر شہرِکراچی پر
سچ یہ ہے دورِ حاضر میں حکومتیں صوبائی میں ہو یا وفاقی حکومت کسی میں بھی صلاحیت اور اہلیت موجود نہیں ہے، سب ایک جیسے نکمے اور نکھٹوں ہیں، ساری حکومتیں ڈرامے بازوں اور دغابازوں کے تسلط میں ہیں۔ ان سب کےرنگ، نسل، نقش و نین، زبانیں اورطریقہ واردات مختلف ہیں، پارٹیوں کی محفلیں ہی نہیں بلکہ پسندیدہ غذا اور مشروب بھی مختلف ہیں لیکن اقتدار میں آکر سب ایک ذات کے ہوجاتے ہیں۔ وفاقی حکومت ناکام اور نااہل ہےبلکل درست بات ہے، مگر صوبوں کے زیر کنٹرول علاقوں اور محکموں میں کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔
مقبوضہ سندھ جس کے سرکاری ڈھانچے پر کئی دہائیوں سے چند لٹیرے براجمان ہے اور کروڑوں انسانوں کو یرغمال بنا رکھاہے۔ سندھ کے دیہاتوں اور شہروں کا دورہ کیجئے۔ ہر موڑ پر ان احمقوں کی خدمت و قابلیت رقص کرتی نظر آئےگی۔ خیر کی امید لگائے رکھیں تو کس سے، جو دہائیوں سے براجمان ہونے کے باوجود اپنے آبائی حلقوں کی حالت اور انفرااسٹرکچر درست نہ کرسکے۔
ایسا بدبخت صوبہ جہاں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والےشہری کے قتل میں منتخب نمائدہ ملوث ہو اور ٹھوس شواہد ہونےکےباوجود عدالت سے باعزت بری کیا جاتا ہے جہاں سینکڑوں بے گناہوں کے قاتل کو اچھا بچہ قرار دیا جاتا ہو وہاں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا محتاط لفظوں میں بھی کہا جائے تو حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اسے بے حسی کہیں یا بزدلی سمجھیں، ذہنی غلامی یا حافظے کی کمزوری کہہ لیجئے مگر ہم آپنے ماضی بھول کیوں جاتے ہیں؟ ہم ان چند مخصوص چہروں اور کرداروں کو پہچان کیوں نہیں لیتے؟ ہم غیروں کے جنگ کی آگ میں اپنے نوجوانوں کو جھونکنے والے کرداروں کو کیسے بھول جاتے ہیں؟
ہم شہرِکراچی میں مصنوعی حادثات، لسانی و مذہبی تفریق، قومی اور زبانی تقسیم کیسے بھول جاتے ہیں؟ ہمیں شہرِکراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والے چہرے کیوں یاد نہیں رہتے؟ ہم سانحہ بلدیہ کیسے بھول جاتے ہیں؟ ہمیں شہدا کارساز یاد کیوں نہیں کرتے؟
ہم سانحہ 12 مئی 2007 کو کیسے فراموش کرلیتے ہیں؟ ہم آفت زدہ لیاری کیسے بھول جاتے ہیں؟ ہمیں سرِعام اپنی ماؤں بہنوں کی لوٹی ہوئی عزت و آبرو غیرت کیوں نہیں دلاتی؟ ہمیں ریجنٹ پلازہ کے سامنے اپنے لخت جگر کی لاش اٹھانی والی ماں کا دکھ و درد محسوس کیوں نہیں ہوتا؟
ان لیٹیروں کی پروٹوکول کی وجہ سے کھلی سڑک پر بچے کو جنم دینی والی بہن کی تکلیف کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے خون پسینے کے کمائی ہوئی دولت پر محصولات کی ادائیگی کے بعد بننے والی شاہراہوں ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ذلیل کیوں کیا جاتا ہے؟
اس بات میں کوئی شک یا ابہام نہیں کہ کراچی کئی دہائیوں سے چند مخصوص گروپوں کے ذاتی و سیاسی رقابت کے وجہ سے مسائلستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہم 1960 کے کراچی کو سننے یا پڑھنے سے بیزار ہے۔ شہرِ کراچی جس کی دنیا میں ایک مخصوص شناخت تھی۔ اس کا ماسٹر پلان اس قدر مقبول تھا کہ کئی ترقی یافتہ ممالک نے اس کی نقل کی۔ کسی زمانے میں کوئی اسے دیکھتا تو اس کا اسیر ہوجاتا۔ تہزیب و تمدن میں ایک ممتاز مقام رکھتا تھا۔ اس کے اسیر اسے "عروس البلاد"یعنی شہروں کی دلہن کہا کرتے تھے۔ یہ وہ بدبخت صوبائی دارلحکومت ہے جہاں کسی زمانے میں گورے اور عرب شہزادے علمی اور فنی تربیت کے حصول کیلئے جوق درجوق آتے اور دنیابھر میں یہاں کے علمی و فنی ترقی کے نغمے گنگناتے۔
شہرِ کراچی جس کے بِنا ریاست کا معاشی پہیہ چلنا ناممکن ہے ایسے احمقوں کی نظر کرنا خود عذاب خداوندی کو دعوت دینے کی مترادف ہے۔ عوام یا تو بے حسی کا شکار ہے یا پہلے سے اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے لیڈروں کے سحراور جال میں پھنسی ہوئی ہے جو انہیں مدتوں سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔
انتہائی معزرت کے ساتھ مزہبی طبقے یا تو مدرسوں اور خانقاہوں میں بند ہیں یا لوٹے، بسترے، مسواک لیِئے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر سیر کر رہے ہیں یا میلاد کی محفلیں لگائے ہوِئے بس نعتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہیں ان مسائل سے سروکار نہیں۔
ہمیں ان مداریوں اورساحروں سے جان چھڑانے کا وقت قریب ہوا چاہتاہے، اجتماعی اور خصوصاً انفرادی سطح پر مثبت اور ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے ورنہ خدنخواستہ ہمیں مستقبل قریب میں ہی سری لنکا جیسے حالت سے گرزنا پڑے گا۔
شہر قائد کے مسائل پر لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر قصہ مختصر اب اس وطنِ ویراں کو کوئی معجزہ یا عوام کی جانب سے سوچ سمجھ کر کیا جانے والا فیصلہ ہی درست سمت لیجاسکتا ہے۔
خدا کرے ہر وہ شمع جلتا رہے، ہر وہ قلم زوراور ہو، ہر وہ سینہ درازہو، ہر وہ دل مظبوط ہو، ہر وہ محفل آباد ہو، ہر وہ جان محفوظ ہو جو میرے وطن کو آباد کرنے کیلئے کوشاں ہوں۔
وطن عزیز کے وہ دشمنان جو کسی بھی روپ میں وطن کو مٹانے کے درپے ہیں خدا ان کی ہر چال کو ناکارہ بنائے اور میرے وطن کی حفاظت فرمائے۔