Khwaja Sara Aur Hamare Na Munasib Rawaiye
خواجہ سرا اور ہمارے نامناسب رویے
خواجہ سرا اس لفظ کو پڑھیں آپ کے ذہن میں پہلی سوچ پہلا خیال پہلا لفظ کیا آیا! کیا آپ نے اس لفظ کو مثبت لیا یا حقارت آمیز اور مذحقہ خیز! کیا آپ کے دل میں کوئی ہمدردی جاگی کوئی ٹیس اٹھی یا بس تحقیر، نفرت اور قہقہہ گونجا! آپ اپنے ذہن میں آنےوالی سوچ کو لاکھ جھٹلائیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سرا کو منفی اور تحقیر آمیزسوچ اورطنزومذاق سے ہی منسوب کرتا ہے۔
یہ تیسری جنس، سائنس کی نظر میں ایک جینیاتی نقص ہے، جس کی نہ تو کوئی خاص وجوہات ہیں اور نہ کوئی علاج، کسی بھی بچے کےاس تیسری جنس کے ساتھ پیدا ہو نے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اگر میں اور آپ مکمل انسان ہیں تو اس میں ہمارا ذاتی کمال نہیں اور اگر کوئی خواجہ سرا ہے تو یقیناً اس کا بھی کوئی ذاتی عمل دخل یا قصور نہیں، مگر ہمارا معاشرہ انھیں ہی قصوروار ٹھہراتا اور سزا دیتا آیا ہے اور تاحال یہ بات سمجھنے سے قاصرہے کہ خواجہ سرا ایک طرح سے نامکمل سہی مگر انسان تو ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ جنسی طور پر معذور ہیں مگر دل اور دما غ تو رکھتے ہیں، ہمارے رویوں کو دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور نجانے کتنی بار ہماری وجہ سے زخمی ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں اور بکھرتے ہیں۔
ہمارے نامناسب رویوں کا پہلا پہلو تو یہ کہ ہمارہ معاشرہ انھیں براہ راست نشانہ بناتا ہے۔ جہاں بھی ہمارا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے انکی تحقیر کرنا، مذاق اڑانا، طعنے دینا حتیٰ کہ لعنتیں بھیجنے کا کام ایک فرض کی طرح کیا جاتا ہے اور میں حیران تب ہوتی ہوں جب اچھے خاصے تعلیم و تہذیب یافتہ لوگ بھی اسے غلط تصور نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے نظر آتے ہیں اب ہم ہیجڑوں کی بھی عزت کریں اور کوئی قہقہہ لگاتے ہوۓ کہتے ہیں خواجہ سرا کب سے قابلِ عزت ہوگئے۔ یہی بات کہ غلط کام کرنا اور پھر اسے غلط بھی نہ سمجھنا زیادہ سنگین ہے اور اس معاملے میں تو تکلیف دہ بھی۔
اور دوسرا پہلو ہمارا بلواسطہ رویہ اور منفی سوچ ہے کہ ہم نے انھیں اپنے لیے تفریح کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے۔ بہت نامور ٹی وی پروگرامز میں ان کی نقلیں اتار کر، مذاق اڑاکر ناظرین کو محظوظ کیا جاتا ہے، بہت سی کامیڈی سیریلز بھی یہی کام کر رہے ہیں جو کہ نہایت گٹھیا اور قابلِ مذمت ہے لیکن افسوس ہم ایسی نشریات پر قہقہے لگا کر خوش ہوتے نظر آتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر جو بات مجھے تکلیف دیتی ہے وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ لفظ خواجہ سرا کو بطور گالی استعمال کرتاہے، کسی شخص پر منفی تنقید کرنی ہو اسکا مذاق اڑانا ہو تو بڑے آرام سے اسے خواجہ سرا یا ہیجڑا قرار دے دیا جاتا ہے، اور یہاں بھی شرمندگی ندارد۔ میرے نزدیک یہ اس شخص سے زیادہ خوجہ سرا کی توہین ہے۔ لیکن ہمیں تو خواجہ سراؤں کا احساس ہی نہیں یا پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کوئی احساسات نہیں۔
جیسے اندھے، گونگے اور بہرے لوگ معذور ہوتے ہیں یا سپیشل لوگ یہ بھی ویسے ہی ہیں یا شاید ان سے بھی زیادہ حساس۔ جیسے ان کیلیے دل میں ہمدردی اور احساس جاگتا ہے خواجہ سراؤں کے لیے بھی ویسے ہی جاگنا چاہیے، جیسے ہم اندھے، گونگے اور بہرے لوگوں کو دیکھ کر کا مذاق نہیں اڑاتے اور جانتے ہیں کہ یہ غیر اخلاقی ہے ویسے ہی انکا مذاق اڑانا بھی غیر اخلاقی ہے اور برا ہی سمجھنا چاہیے مگر افسوس کہ ہماری اکثریت اسے غلط سمجھنے کوبھی تیار نہیں ہے۔
ویسے تو خواجہ سرا تمام دنیا میں ہی اپنے جائز مقام سے محروم ہیں، اس سلسلے میں ہر سال 31 مارچ کو عالمی سطح پر منایا جانے والا خواجہ سراوں کا دن بھی کوئي خاص مددگار نہیں لیکن ہماری حالت سب سے ابتر ہے۔ دیگر ممالک میں پھر بھی خواجہ سراؤں کیلیے روزگار کے مواقع تو میسر ہیں لیکن ہم نے تو ان کے لیے بس ناچ گانے کا پیشہ ہی مخصوص کر رکھا ہے۔ یہ لوگ اپنی محرومیوں اور اداسیوں کو میک اپ کے پیچھے چھپانے کی ناکام سی کوشش کر کے دوسروں کی خوشی میں ناچ کر اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں اور اپنے ہی ہم جنسوں کے ساتھ رہتے ہیں وہی ان کے ماں باپ، بہن بھائی، دوست سب کچھ ہوتے ہیں لیکن اس معاشرے کو ان کا وجود پھر بھی کھٹکتا ہے۔ جو سلوک ان کے ساتھ کیا جاتاہے اسکے بعد کوئی خواب، خواہش ویسے ہی باقی نہیں رہتی، پھر بھی اگر کوئی ہمت، کوشش کر لے، یا پیٹ کی خاطر ہی کچھ کرنا چاہے تو ہم اتنا ذلیل و رسوا کرتے ہیں کہ وہ زندگی سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اور معاشرے کےان غیرمناسب رویوں ہی کی وجہ سے خواجہ سراؤں میں خودکشی اور خود کشی کی ناکام کوشش کا تناسب عام انسانوں سے گئی گنا زیادہ ہے۔
حکومت ان مخصوص افراد کے لئے ادارے قائم کر سکتی ہے، کوٹا مقرر کرسکتی بہت زیادہ بھی کرے تو وظیفے دے سکتی ہے مگرمعاشرے میں انھیں معزز شہری کا مقام نہیں دلوا سکتی۔ یہ کام شہریوں کو خود کرنا ہے، اپنے اور دوسروں کے رویوں کو بدلنا ہے۔
یہ معصوم اپنے خاندان کے گھر بدر کیے ہوئے، دھتکارے ہوئے، گالیاں کھا کر پلے ہوئے انسان اگر اپنے تمام تر دکھوں کے ساتھ زندہ ہیں تو خدارا ان کو زندہ رہنے دیں، اپنے لہجوں سے، لفظوں سے انھیں مت ماریں، اگر حوصلہ دے نہیں سکتے تو توڑیں بھی نہ۔ اعتماد دے نہیں سکتے تو چھینیں بھی مت، اگر انکا مذاق اڑانے والوں کو روک نہیں سکتے تو کم ازکم خود اس کا حصہ نہ بنیں۔
غلط کو غلط تو مانیں، خواجہ سراؤں کے انسان ہونے کا احساس تو کریں یا پھر اپنے ہی انسان ہونے کا حق ادا کر دیں۔ اور پھر بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری یقیناً اس سے زیادہ ہے۔ ہمارا دین انسانیت کا درس دیتا ہے، جانوروں تک کو حقوق مہیا کرتا ہے تو انسانوں کی دل اور روح آزاری کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ آخری بات یہی کہوں گی کہ اگر ہم بطور عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پیروکار خود کو پرکھیں تو یقیناً ہم خواجہ سراؤوں کے ساتھ اپنے رویوں پر نادم ہوں گے اور اپنے رویوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔