Monday, 22 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mushtaq Ur Rahman Zahid
  4. Peshawar University Mein Seerat Un Nabi Talent Test

Peshawar University Mein Seerat Un Nabi Talent Test

پشاور یونیورسٹی میں سیرت النبی ٹیلنٹ ٹیسٹ

گزشتہ روز پشاور یونیورسٹی میں سیرت النبی ﷺ کے مقدس عنوان پر ایک علمی و فکری ٹیلنٹ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا، جس کا انتظام طلباء تنظیم جمعیت طلباء اسلام پشاور یونیورسٹی نےکیا تھا۔ اس خوبصورت عنوان کے لئے باقاعدہ ایک منظم تقریب ترتیب دی گئی تھی۔ تقریب میں جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کی رکنِ صوبائی اسمبلی محترمہ ایمن جلیل جان، جے یو آئی کے صوبائی رہنما عبدالجلیل جان سمیت مختلف مذہبی، سیاسی اور طلبہ رہنماؤں نے شرکت کی۔ مہمان خصوصی ایم پی اے محترمہ ایمن جلیل جان نے کھل کر طلباء مسائل پر گفتگو کی اور طلباء کو یقین دلایا کہ وہ خیبرپختونخوا اسمبلی سمیت ہر فورم پر پشاور یونیورسٹی کے طلباء کے اسکالرشپ سمیت تمام مسائل کے حل کے لئےآواز اٹھائے گی۔

اس ٹیسٹ میں پشاور یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے دو سو سے زائد طلبہ و طالبات نے بھرپور انداز میں حصہ لیا، طلباء وطالبات نے دینی جذبے اور عقیدت کے ساتھ سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر ٹیلنٹ ٹیسٹ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اسے وقت کی ضرورت اور اپنی خوش قسمتی قرار دیا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند اور قابلِ تحسین ہے کہ آج کے اس پُرفتن اور بے راہ روی کے دور میں معماران قوم ایسے مقدس اور بنیادی اسلامی عقائد سے محبت و عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ خاص طور پر نوجوان نسل تیزی سے اخلاقی پستی، بےدینی اور بیہودگی کی طرف بڑھتی جا رہی ہے۔ فحاشی و عریانی ان میں رچ بستی نظر آرہی ہے رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے۔ عصری تعلیمی اداروں کالجز اور یونیورسٹیوں میں دینی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر ایسے ماحول کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو ہمارے اسلامی تشخص سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رقص و سرود، ڈانس اور موسیقی پر مبنی تقریبات کا انعقاد معمول بنتا جا رہا ہے اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان سرگرمیوں میں بعض اوقات تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہوتی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

ایسی صورتحال میں سیرت النبی ﷺ جیسے بنیادی اور ایمان افروز موضوع پر ٹیلنٹ ٹیسٹ اور تقریبات کا انعقاد ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آج بھی ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں ایمان کاجذبہ موجزن ہے۔ اس طرح کی تقریبات نہ طلباء وطالبات میں نہ صرف دینی شعور کو بیدار کرتی ہیں بلکہ طلبہ کو اپنی اصل پہچان، ثقافت اور عقیدے سے جوڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جمعیت طلبہ اسلام ایک اسلام پسند اور نظریاتی طلبہ تنظیم ہے، جو 1969 میں ملا اور منسٹر کے فرق کے خاتمے، یعنی دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج کے نظریے کے تحت وجود میں آئی ہے جس کابنیادی مقصد یہ ہے کہ مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دینِ اسلام کی سربلندی اور معاشرے کی فکری و اخلاقی اصلاح کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔

جو اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ دین اور جدید تعلیم ایک دوسرے کی ضد یا مقابل نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کے زیرِ اہتمام ملک بھر میں وقتاً فوقتاً دینی، فکری اور تربیتی پروگرامز منعقد کیے جاتے رہے ہیں، جن کا مقصد طلبہ کے اندر دینی شعور بیدار کرنا اور انہیں اپنی اسلامی شناخت سے روشناس کرانا ہے۔

اس سے قبل بھی پاکستان کے مختلف صوبوں میں جمعیت طلبہ اسلام کے زیرِ اہتمام ایسی دینی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے، جن میں کراچی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سمیت متعدد کالجز اور یونیورسٹیز شامل ہیں۔ ان تقریبات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ آج کا طالب علم دین سے دور نہیں بلکہ اسے صحیح رہنمائی اور مثبت پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔

ان نوجوانوں کا اسلام کا سچا جذبہ طلبہ میں عام کرناہے جو ان کی بنیادی شناخت ہے، پاکستان چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے، اس لیے یہاں اسلام ہی کو پروان چڑھنا چاہیے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات، عقائد اور اخلاقی اصولوں سے ہر طالب علم کو روشناس ہونا چاھئیے خواہ وہ مدارس کا ہو یا کالجز اور یونیورسٹیز کا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہی نوجوان مستقبل میں ملک کے معمار، قائدین، اساتذہ، بیوروکریٹس ججز اور پالیسی ساز بنیں گے۔ اگر انہیں تعلیمی دور ہی میں اسلام کی بنیادی معلومات، دینی شعور اور اخلاقی اقدار سے آراستہ کر دیا جائے تو یہی نسل ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک مثبت، مضبوط اور کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں اس نوعیت کی تقریب کا انعقاد نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے طلبہ و طالبات اور عصری تعلیمی اداروں کے لیے ایک مثالی رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی کوششوں کی بھرپور پذیرائی ہونی چاہیے اور ان کے مثبت پہلوؤں کو مزید اجاگر کیا جانا چاہیے، تاکہ دیگر تعلیمی ادارے بھی اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔

تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، منتظمین اور پالیسی سازوں پر یہ اخلاقی اور آئینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے دینی اور اصلاحی پروگرامز کے انعقاد میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ بحیثیت ایک اسلامی ریاست، یہ ذمہ داری نہ صرف دینی بلکہ قومی فریضہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کو اسلامی اقدار، اخلاقی تربیت اور نظریاتی شعور کا مرکز بنایا جائے۔ اگر ہم نے آج اپنی نوجوان نسل کی فکری اور اخلاقی تربیت پر توجہ نہ دی تو آنے والے وقت میں ہمیں ایک ایسی نسل ملے گی جو اپنی دینی شناخت سے ناواقف ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرز کے علمی و دینی پروگرامز کو تسلسل کے ساتھ منعقد کیا جائے اوراس کی انتظامی طور پر بھی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ نوجوان نسل ایمان، کردار اور نظریۂ پاکستان کا آئینہ دارہو۔

Check Also

Qarz Mein Jakri Dunya Aur Khush Fehmi Ke Taj

By Asif Masood