Majlis e Ittehad e Ummat Ki Baithak
مجلس اتحاد امت کی بیٹھک

پیر کے روز کراچی میں مجلس اتحادِ امت کے نام سے مذہبی تنظیموں کا ایک بڑا، غیر معمولی اور نہایت اہم اجتماع منعقد ہوا، جس میں ملک بھر کے تمام مسالک کی قیادت نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر قومی، آئینی، دینی اور بین الاقوامی معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔ اس اجتماع میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمن، وفاق المدارس کے ناظمِ اعلیٰ مفتی حنیف جالندھری سمیت ملک کی تقریباً تمام دینی تنظیموں کے سربراہان اور منتظمین شریک ہوئے۔ یہ اجتماع اس اعتبار سے بھی اہم تھا کہ اس میں امتِ مسلمہ کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز پر یکساں اور متفقہ مؤقف سامنے آیا۔
مجلس اتحادِ امت کے اس اجتماع میں سب سے پہلے ستائیسویں آئینی ترمیم میں دیے گئے استثنیٰ پر تفصیلی اور سنجیدہ غور و خوض کیا گیا۔ طویل مشاورت کے بعد تمام شرکاء اس نتیجے پر پہنچے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت صدرِ مملکت اور آرمی چیف کو جو تاحیات استثنیٰ دیا گیا ہے، وہ صریحاً خلافِ شریعت ہے۔ علماء کرام نے اس بات پر زور دیا کہ اس قسم کا استثنیٰ نہ تو اسلامی احکامات میں کہیں موجود ہے، نہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے، نہ صحابۂ کرامؓ کے دور میں اس کا کوئی تصور پایا جاتا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی منصفانہ قانونی نظام میں اس کی نظیر ملتی ہے۔ شرکاء کے مطابق یہ استثنیٰ انصاف کے بنیادی اصولوں کے بھی سراسر منافی ہے، کیونکہ اسلام میں حکمران ہو یا عام شہری، سب قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں۔
اجتماع میں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کو مؤثر اور منظم بنایا جائے اور اس میں ایسے اہل، دیانت دار اور جید علماء کرام کو جج مقرر کیا جائے جو شریعتِ اسلامی کی روشنی میں فیصلے کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہوں۔ علماء کرام کا کہنا تھا کہ اگر فیصلے قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوں گے تو معاشرے میں انصاف، توازن اور اعتماد بحال ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ قوانین سازی میں اسلامی نظام کے نفاذ کو محض نعرہ نہ بنایا جائے بلکہ عملی طور پر قانون سازی کی جائے اور اس پر باقاعدہ عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔
اجتماع میں 18 سال سے کم عمر شادی پر پابندی سے متعلق قوانین کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور متفقہ طور پر اسے خلافِ شریعت قرار دیا گیا۔ علماء کرام نے کہا کہ ایسے قوانین اسلامی معاشرتی اقدار، دینی تعلیمات اور خاندانی نظام کے منافی ہیں اور یہ مغربی سوچ کو زبردستی اسلامی معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس میں پاک افغان صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔ علماء کرام نے مطالبہ کیا کہ پاک افغان مسائل کو طاقت، دباؤ یا محاذ آرائی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ممالک کو اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے، انہیں دشمنی اور مخالفت کی طرف دھکیلنا دانائی نہیں۔ اجتماع میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان میں موجود واحد امارتِ اسلامیہ کی حکومت پرو پاکستان حکومت کہلاتی ہے، جبکہ اس سے قبل افغانستان میں آنے والی بیشتر حکومتیں پاکستان مخالف اورپرو ہندوستان رہی ہیں۔ لہٰذا پاکستان کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ ایک پرو پاکستان حکومت کے خلاف متصادم پالیسی اختیار نہ کرے۔ علماء کرام نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاک افغان تعلقات کی بہتری میں وہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اجلاس میں غزہ کی کشیدہ صورتحال پر بھی انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ شرکاء نے کہا کہ اگرچہ بظاہر جنگ بندی کا تاثر دیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی مظالم اب بھی جاری ہیں اور فلسطینی عوام مسلسل ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ اجتماع میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستانی حکومت اپنی فوج غزہ نہ بھیجنے کا باقاعدہ اعلان کرے اور اس منصوبے میں ہرگز شامل نہ ہوا جائے جس کے تحت اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی افواج غزہ بھیجیں اور حماس کو غیر مسلح کریں۔ علماء کرام کے مطابق یہ ایک انتہائی غیر دانشمندانہ اور خطرناک فیصلہ ہے، جو امتِ مسلمہ کو آپس میں الجھانے کے مترادف ہے۔ اجتماع نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنی پالیسی واضح کرے اور کسی بھی صورت میں اپنی فوج غزہ نہ بھیجنے کا دوٹوک اعلان کرے۔
دینی مدارس کے حوالے سے حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات پر بھی شدید افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت کو مدارس سے مسائل نہیں بلکہ مدارس کو حکومت سے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس نے اپنے بل بوتے پر، بغیر سرکاری وسائل کے، لاکھوں افراد کو اسلامی تعلیم فراہم کی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر حکومت کو دعوت دی کہ آئیں، مل بیٹھ کر ایک ایسا منظم اور مربوط تعلیمی نظام تشکیل دیں جس میں اسلامی اور جدید دونوں علوم شامل ہوں، لیکن بدقسمتی سے حکومت اور خصوصاً بیوروکریسی اس کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ انہوں نے دوٹوک اعلان کیا کہ دینی مدارس کے حوالے سے کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا، نہ ایسا کوئی قانون منظور ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہونے دیا جائے گا۔
اجلاس میں سود کے خاتمے کے معاملے پر بھی سخت اور واضح مؤقف اختیار کیا گیا۔ شرکاء نے کہا کہ آئینِ پاکستان میں سود کے خاتمے کے لیے جو مدت طے کی گئی ہے، اس کے اندر اندر ہر صورت سود کا خاتمہ کیا جائے۔ علماء کرام نے اس بات پر زور دیا کہ سود کے خاتمے کے خلاف روڑے اٹکانے والے افراد اور قوتوں کو ناکام بنایا جائے، کیونکہ یہ صرف دینی مطالبہ نہیں بلکہ آئینی تقاضا بھی ہے۔ سود کا خاتمہ اب اسلامی تعلیمات اور آئینِ پاکستان دونوں کے تحت لازم ہو چکا ہے اور اس سے انحراف کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
یہ اجتماع دراصل اس حقیقت کا اعلان تھا کہ دینی قیادت آئین، شریعت، قومی خودمختاری اور امتِ مسلمہ کے اجتماعی مسائل پر متحد ہے اور کسی بھی ایسے قانون، پالیسی یا اقدام کو قبول نہیں کرے گی جو اسلامی اصولوں، انصاف اور قومی مفاد کے خلاف ہو۔

