Saturday, 20 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mushtaq Ur Rahman Zahid
  4. Insani Yakjehti Ka Aalmi Din Aur Ijtemai Behissi

Insani Yakjehti Ka Aalmi Din Aur Ijtemai Behissi

انسانی یکجہتی کا عالمی دن اور اجتماعی بےحسی

آج 20 دسمبر دنیا بھر میں انسانی یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کی باقاعدہ منظوری 2005ء میں اقوامِ متحدہ نے دی تھی۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کے قریب آئیں، ایک دوسرے کے دکھ درد اور تکلیف کو محسوس کریں، باہمی ہمدردی و تعاون کو فروغ دیں اور انسانیت کے رشتے کوآپس میں مضبوط بنائیں۔ مگر اگر ہم آج کے حالات پر گہری نظر ڈالیں تو یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انسانی یکجہتی اب ایک نایاب شےبن گئی ہے۔

آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں وہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس دور میں ایک انسان دوسرے انسان سےناآشنا نظر آتا ہے۔ پڑوسی پڑوسی سے بے خبر ہے، رشتہ دار دوسرے رشتہ داروں کی سرگرمیوں، پریشانیوں اور مسائل سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر انسان اپنی مصروفیات میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ اسے نہ تو دوسروں کے دکھ دردنظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے وقت نکالنے کی فرصت میسر ہے۔ انسانی رشتےانتہائی کمزور ہو چکے ہیں اور معاشرہ بس ایک ہجوم میں بدل گیا ہے جہاں ہرفرد تنہا زندگی بسرکررہاہے خاص طورپر ٹچ موبائل اورانٹرنیٹ کی دنیانے انسانوں کے آپس میں رابطےمنقطع کردئیےہیں، اقوام متحدہ کےانسانی یکجہتی کے عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، پریشان حال لوگوں کی مشکلات کو سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسروں کے ساتھ تعاون کریں اپنی غمی وخوشی میں ایک ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کی دولت یا حیثیت نہیں بلکہ اس کا کردار اور انسانیت کے لیے اس کا رویہ ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس دن کے پیغام کونہ صرف سنجیدگی سے نہیں لیابلکہ اس کے برعکس محوسفرہیں اقوامِ متحدہ میں اس دن کی کاغذی طورپر منظوری تو دے دی گئی، مگر جب ہم حقیقتاً عملی طور پر دنیا بھر میں نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کہیں بھی انسانی یکجہتی کی واضح مثال نظر نہیں آتی۔ نہ ہمیں اپنے اندرونی سطح پر انسانی یکجہتی دکھائی دیتی ہے، نہ ملکی سطح پر اور نہ ہی عالمی سطح پر۔ ہر طرف مفادات کی جنگ، طاقت کی مستی اورتنہا سفرکا راج ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی یکجہتی کا عالمی دن صرف کاغذات میں لکھا جا چکا ہے اور عملی طور پر اس کوقبول کرنےکے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ اورنہ ہی ایسی کوئی عالمی کوششیں کی گئیں ہیں جس اس دن کی اہمیت وافادیت اجاگرہوسکے کیونکہ وہی چیزیں موثراورکامیاب ہوتی ہیں جو عالمی سطح پراجاگرہوں اس کےلئے عملی اقدامات اورسنجیدہ اور پرخلوص محنتیں کی جائیں جوکہ عملا نظرنہیں آرہی یہی وجہ ہے کہ آج لوگ اس دن کی اہمیت وافادیت سے بےخبرہیں اگر ہم اپنے معاشرے کابہ نظرغائر جائزہ لیں تو یہاں بھی حالات مختلف نہیں۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی اورپریشانیوں نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد مفقودہے اجتماعی سطح پر ایک دوسرے کا سہارا بننے کا جذبہ بھی ماند پڑتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنی مشکلات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ دوسروں کے دکھ درد ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ انسانی یکجہتی، جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، اب محض تقریروں اور نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ مسئلہ صرف نچلی سطح پرنہیں ہے بلکہ

عالمی سطح پر صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویش زدہ اورافسوس ناک ہے دنیا کے مختلف ممالک میں مظالم جاری ہیں، لاکھوں انسان بے گھر ہو چکے ہیں، بچے تعلیم سے محروم ہیں، خواتین و بزرگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مہاجرین کے قافلے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، مگر عالمی ضمیر خاموش دکھائی دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ، جو انسانی یکجہتی اور انسانی حقوق کی محافظ سمجھی جاتی ہے، اس حوالے سے بھی ایک عجیب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اقوامِ متحدہ خود عالمی سطح پر انسانی یکجہتی کے دن کو بھرپور انداز میں اجاگر کرتی۔ مختلف ممالک میں سیمینارز، کانفرنسز، آگاہی پروگرامات اور عملی فلاحی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی تاکہ انسانوں کو محض الفاظ نہیں بلکہ عمل کے ذریعے یہ پیغام دیا جاتا کہ انسانوں کے مسائل کا واحدحل اجتماعی کوششوں میں مضمرہے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی طاقتیں انسانی یکجہتی کے معاملے میں دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔ کہیں انسانی حقوق کے نام پر آواز بلند کی جاتی ہے اور کہیں مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس رویے نے نہ صرف انسانی یکجہتی کے تصور کو کمزور کیا ہے بلکہ دنیا میں بداعتمادی اور نفرت کو بھی فروغ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی یکجہتی کسی ایک دن، کسی ایک قرارداد یا کسی ایک ادارے کی محتاج نہیں۔ یہ ایک مستقل سوچ، ایک مسلسل عمل اور ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کا آغاز فرد سے ہوتا ہے۔ جب تک ہر انسان اپنے اردگرد موجود انسانوں کے مسائل کو محسوس نہیں کرے گا، اس کے ساتھ یکجہتی وتعاون نہیں کریگا تب تک کوئی عالمی دن یا قرارداد ہمیں انسانی یکجہتی کے راستے پر نہیں لا سکتی۔

تعلیم، میڈیا اور سماجی اداروں کا کردار اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ تعلیمی ادارے اگر نئی نسل میں انسان دوستی، برداشت اور سماجی ذمہ داری کی تعلیم دیں ان میں شعور پیدا کریں، میڈیا اگر نفرت اور سنسنی خیزی کے بجائے انسانیت کے مسائل کو اجاگر کرے اور سماجی تنظیمیں عملی خدمت کے مواقع فراہم کریں جوکسی حدتک کربھی رہی ہیں تو انسانی یکجہتی کو دوبارہ عملا زندہ کیا جا سکتا ہے۔

نوجوان نسل اس جدوجہد کی سب سے بڑی امید ہے۔ اگر نوجوان اپنی توانائیاں فلاحی سرگرمیوں، رضاکارانہ خدمات اور سماجی بہتری کے کاموں میں صرف کریں تو معاشرہ مثبت سمت میں جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کا جذبہ اور شعور ہی انسانی یکجہتی کو عملی شکل دے سکتا ہے۔

موجودہ پریشان کن اورگھمبیرصورتحال میں انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہمیں محض ایک تاریخ یاد دلانے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں ایک اورموقع فراہم کرتاہے کہ ہم خود سے سوال کریں کہ

کیا ہم واقعی انسان ہیں؟

اگر ہم ایک دوسرے کے دکھ درد سے بے خبر رہیں تو انسان ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انسانی یکجہتی کو ایک دن کی حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ ایک ایسی دنیا جہاں انسان انسان کے کام نہ آئے، وہاں انسانیت کا وجود ہی بےمعنی ہوجاتا ہے۔

Check Also

Insani Yakjehti Ka Aalmi Din Aur Ijtemai Behissi

By Mushtaq Ur Rahman Zahid