Shohrat Ke Baad Muqadar
شہرت کے بعد مقدر
شہرت کیا ہے، ایک بارِ گِراں جس کو انسان کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور ہلکان ہوتا ہے۔ ہر شخص جو پہاڑ کی چوٹی کو قدموں تلے روندنا چاہتا ہے اسے واپس نیچے بھی اترنا ہے۔ چوٹی پر پہنچنا ایک خواب ہے۔ اپنے حوصلے کی آزمائش اور اپنی ذات کی تشہیر ہے اور نیچے آنا ایک فطری امر ہے۔ چوٹی پر قدم جمانا کتنا ہی سرور انگیز کیوں نہ ہو اس پر مسلسل قیام کوئی نہیں کرسکتا۔ جگمگانے اور آنکھوں کو خیرہ کردینے کی خواہش کرنے والے ہر شخص کےلیے جاننا ضروری ہے کہ ایک روز اس کی روشنی ماند بھی پڑے گی۔
جوانی کے آغاز کے ساتھ ہی ہماری خواہشات اور آرزوئیں بھی جوان ہوجاتی ہیں۔ ہماری خوش کن فنٹسیز بلند عزائم میں ڈھل جاتی ہیں۔ ہمارا سینہ جذبوں سے دہک اٹھتا ہے اور آنکھیں خوابوں سے سلگتی ہیں۔ ہم ہر طریقے، ہر رستے سے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اسی دور میں ڈیپریشن اور انگزائٹی کا زور ہوتا ہے۔
شہرت کی تمنا ایک فطری جبلت ہے۔ انسان ہمیشہ دوسرے انسانوں میں ممتاز ہونا چاہتا ہے۔ چاہے جانے کی خواہش بہت زور آور ہے۔ شہرت سے پہلے ایک طویل وقت گُم نامی اور بے قدری کا گزرتا ہے۔ شہرت کے حصول کا رستہ طویل، صبر آزما، جاں گسل، ہزار ہا فریب سے ڈھکا اور بھٹکا دینے والی پگڈنڈیوں سے منسلک ہے،شہرت کمال نہیں، کمال شہرت پیدا کرتا ہے۔ کسی ہنر و کمال کے ذریعے شہرت حاصل ہو تو بھی ایک آزمائش ہے اور اگر بغیر کسی کمال کے حاصل ہوجائے جیسا کہ آج سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی طرح حاصل ہوجاتی ہے تو یہ اس فرد کےلیے ہی تباہ کن ہوتی ہے۔ معاشرے کو اس سے ویسے بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا۔
ہم فرض کرلیں، اگر ہمیں سب کچھ حاصل ہوجائے۔ ہمارا نام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جائے، ہماری جھلک دیکھنے کو لوگ بےتاب ہوں، ہمارے لکھے، بولے لفظوں کی قیمت لگے، ہمارے دستخط آٹوگراف بن جائیں۔ قدموں کے نیچے قالین اور سر پر گل پاشی سے ہمارا استقبال کیا جائے۔ ہم فرض کرلیں، اگر ہمیں یہ سب کچھ حاصل ہوجائے۔ اس کے باوجود ہماری کئی خواہشات ہوں گی جو تشنہ رہ جائیں گی۔ ذات کے اندر کچھ خلا باقی رہ جائیں گے۔ ہمیں درد بھی محسوس ہوگا۔ ہم سے غلطیاں بھی ہوں گی بلکہ غیر معروف شخص کے مقابلے میں ہمارا عمل ہمیں زیادہ متاثر کرے گا۔ ہماری غلطیاں تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔ ہمارے دکھ بھی عوام کےلیے قابلِ تبصرہ ہوں گے۔ ہم پر بھی زمانہ گزرے گا، موسم اپنے اثرات ڈالیں گے، ہماری عمر بڑھتی جائے گی۔ ہاتھوں میں رعشہ اور چہرے پر جھریاں آجائیں گی۔ اگر سنگین بیماریوں نے ہم پر رحم کھایا تو بھی ہمارے اعضاء مضمحل ہو جائیں گے۔ آخر، ہم خاک کے پُتلے ہی رہیں گے۔
گارشیا مارکیز سے پوچھا گیا: کیا جلد شہرت ملنا ادیب کےلیے برا ثابت ہوتا ہے؟ اپنی طرز کے بے مثل ادیب نے جواب دیا۔"کسی بھی عمر میں بُرا ہے"۔
اُس نے یہ ایسے وقت کہا جب شہرت اور دولت اس پر نچھاور تھیں۔ طلسماتی داستانیں تراشنے والا لفظوں کا یہ فسوں گر عمر کے آخری ایام میں اپنی یاداشت کھو رہا تھا۔ بنیادی باتیں پوچھنے کےلیے اسے اپنے بھائی کو فون کرنا پڑتا تھا۔
عظیم باکسر محمد علی نے زندگی کے آخری بتیس برس پارکنسن کی بیماری سے نبرد آزما گزارے۔ آہستہ آہستہ کھانے والی اس بیماری سے لڑنے کی طاقت اس کی ہمت، اصول اور ایمان نے اسے عطا کی۔ مائیکل جیکسن کو دیوتاؤں جیسی شہرت ملی مگر وہ اپنی ذات کا خلا نہ بھر سکا۔ نتیجہ ایک کے بعد ایک سرجری، درد کش دوائیں، جسم میں جا بہ جا سوئیوں کے سوراخ۔
اندر کے خلا ہمیشہ اندر سے بھرے جاتے ہیں۔
دنیا ایک بازار کی طرح ہے۔ جب تک تمہاری دکان سجی ہے، اس میں نیا مال موجود ہے اس وقت تک قدر ہے۔ جوں ہی تم اُٹھے کوئی دوسرا تمہاری جگہ پر آجائے گا۔ تمہارے حسن سے بڑھ کر آنکھوں کو خیرہ کردینے والا حسن موجود ہوگا۔ تمہارے کلام سے زیادہ منفرد کلام پیش ہوگا۔ موجودہ تیز رفتار دور میں تو چیزیں اور لوگ مزید جلد آؤٹ ڈیٹڈ ہوجاتے ہیں۔
پھر کسی روز کی کسی شام گھر کی بالکونی یا صحن میں بیٹھے ہاتھ میں چائے کا کپ لیے نظروں کے سامنے گزشتہ زندگی کی تصویریں چل رہی ہوں گی۔ کیے گئے فیصلے اور بھگتائے گئے معاملات سامنے ہوں گے۔ ایسے وقت ذہن میں کچھ یہی سوالات ابھرتے ہیں۔ آخر اس سفر میں کیا کھویا، کیا پایا؟ کیا ساری حیات کی تگ و دو کا حاصل یہی رہا؟
اپنے آپ سے سوال کرنے، غور کرنے کا یہ لمحہ بھی اس وقت عنایت ہوتا ہے۔ جب شہرت آپ کو رستے میں ہی توڑ نہ دے، بھٹکا نہ دے۔ جب ہم شہرت کی چوٹی سے قدم بہ قدم نیچے اتریں۔ زوال فطری طور پر ہو۔ ہم اس چوٹی سے پھسل کر رسوائی، بد نامی کی کھائیوں میں نہ گرجائیں۔ غربت اور عداوت کی چٹانوں سے نہ ٹکرائیں۔ ہر دوحال میں مشکل ہے۔ ایسے ہی لمحے ذہن میں سوال آتا ہے کہ دنیا کو آزمائش کی جگہ کیوں کہا گیا۔ کیا فقط تکالیف کے باعث؟
بہ لحاظِ سختی حیوانات ہم سے مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ غالباً اپنے سینکڑوں بدلتے رُخوں اور کشمکش کی فطرت کے باعث ہی انسان کےلیے زندگی کو آزمائش کہا گیا ہے۔ وہ سوالات جو بے شمار موسم گزرجانے کے بعد اداس شاموں میں ہم پر وارد ہوں گے، ان کو ہم آج تلاش کریں جب یہ سارے موسم گزرنا ابھی رہتے ہیں۔ جب ہم گم نام ہیں یا شہرت کے گھوڑے پر ہنوز سوار ہیں۔
کامیابی کیا ہے اور شہرت کیا ہے؟ کامیابی اور شہرت کیا یکساں شے ہیں؟ شہرت کی حقیقت کیا ہے؟ انسان اور زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ شہرت سے قبل طویل وقت جو گم نامی کا گزرتا ہے، بڑا غنیمت ہے۔ اس میں آدمی، اگر چشمِ بینا رکھتا ہو، اُن بہت سے سوالات کے جوابات پالیتا ہے جن کی تلاش اُسے زمانہ بعد درپیش ہوتی ہے۔
علم رکھنے والے کہتے ہیں کہ کامیابی انسان کا جوہر ہے۔ اس کےلیے جتنی چاہے تگ و دو کرو۔ آخر میں انسان کے پاس اطمینان بچتا ہے، اگر اس نے زندگی سے حاصل کیا ہے اور اطمینان کی کھڑکی اندر کی جانب سے ہی کُھلتی ہے۔ اگر کمال کے ذریعے حاصل ہو تو شہرت بھی بری نہیں، اس کا نشہ بُرا ہے۔ نشہ وہ ہے جو مدہوش کردیتا ہے۔