Mustaqbil Hame Kyun Darata Hai? (2)
مستقبل ہمیں کیوں ڈراتا ہے؟ (2)
عروج آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
سلسلہ وہی سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلے حصے میں چھوڑا تھا۔ مستقبل کی غیر یقینی، تقدیر کے اسرار اور خوف میں گھرا انسان۔ کوئی چراغ ہے انساں کے پاس جو اس تاریکی میں راہ دکھائے؟ جو اس وسیع کائنات میں شعور کا امتحان سہنے والے واحد جاندار کے دل کی ڈھارس بندھاسکے؟ خدا نے انسان کو بے اسلحہ اور بے مددگار پیدا نہیں کیا۔ اس خوف و بے یقینی کے مقابلے کےلیے انساں کو چند ذرائع بھی دیے ہیں۔
پہلا ذریعہ علم و حکمت ہے۔ علم وہ بنیادی چیز ہے جو نامعلوم کو معلوم میں بدلتی ہے اور پھر غیر یقینی چھٹنے لگتی ہے۔ اسرار کی تہیں کمزور ہونے لگتی ہیں اور اس "معلوم ہونے" کا درست استعمال حکمت ہے۔ کبھی انسان جن چیزوں سے ڈرتا تھا، جن کو پوجتا تھا، آج علم کے زور پر انھیں مسخر کررہا ہے۔ چاند پر کمند لگادی۔ سیاروں پر زندگی تلاش کررہا ہے۔ دنیا کے رابطے ایک گاؤں جتنے قریب کردیے۔ کائنات کے بلیک ہول کو کیمرے کی آنکھ میں سمودیا۔ علم نے ہی حضرت انسان کو اس کائنات کا سب سے بڑا سروائیور بنایا ہے۔ انسان کی انفرادی زندگی میں بھی علم ہی روشنی بکھیرتا ہے۔ پستیوں سے بلندی تک پہنچاتا ہے۔ تاریکی سے روشنی میں لاتا ہے، نامعلوم اشیاء سے پردہ اٹھتا ہے تو خوف ختم ہونے لگتا ہے اور علم یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت سمجھ آجائے۔
علم کےلیے کیا ضروری یے، ایک دلِ آمادہ ایک اور فکر کرنے والا دماغ، جو چند لمحے آزاد ہوکر سوچ سکے۔
انسان کے پاس دوسرا ذریعہ امید و یقین ہے۔ امید کے سہارے انسان کھڑا رہتا ہے اور یقین فتح کرنے کا جذبہ دیتا ہے۔ امید وہ بچہ ہے جس کی درست نشوونما کی جائے تو توانا ہوکر یقین بن جاتا ہے۔
کسی معاشرے میں خود کشیاں اس لیے بھی بڑھتی ہیں کہ اس معاشرے سے امید ختم ہوجاتی ہے اور غیر یقینی بڑھ جاتی ہے۔ کسی معاشرے کے زوال کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ اکثریت سراسیمگی اور غیر یقینی کی حالت میں رہ رہی ہو۔ مختلف اقسام کے خوف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوں۔ جب معاشروں میں بے یقینی، مفاد پرستی، ہیجان بڑھتا ہے تو خوف جنم لیتے ہیں اور اُس معاشرے کے تانے بانے اکھڑ جاتے ہیں۔ امید دل کو زندہ رکھتی ہے۔
تیسرا ذریعہ انسان کے پاس جدوجہد یا کوشش ہے۔ کوشش وہاں بھی کارگر ہوتی ہے جہاں علم کام نہ آئے، یقین ڈنواڈول ہوجائے، امید ساتھ چھوڑنے لگے، مگر ایک کوشش رہ جاتی ہے۔ ایک اندھی کوشش۔ آخری کے بعد پھر ایک آخری کوشش۔ اور پھر ایک آخری۔ تاریک طوفاں میں بپھری ہوئی لہروں پر جب ملاح کشتی سنبھال رہا ہوتا ہے تو اُسے لہروں کی طاقت و غضب اور اس کے مقابل اپنی کشتی کی تاب، چپوؤں کی طاقت اور اپنے بازوؤں کی ہمت سب کا اندازہ ہوتا ہے مگر تاریکی و خوف کے درمیان وہ کوشش کرتا رہتا ہے۔
پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لہریں پر سکون ہوجاتی ہیں۔ تاریکی چھٹ جاتی ہے، سورج مہربان رخ دکھاتا ہے اور روشنی جھلملانے لگتی ہے۔ جب انسان کوشش کرتا رہتا ہے تو آہستہ آہستہ بہت سی دسترس سے باہر چیزوں کو دسترس میں کرتا جاتا ہے۔ کوشش اس کا نام ہے کہ اگر ہارنا ہی ہے تو کوشش کا مزہ چکھے بغیر کیوں؟ بغیر کوشش صرف ہار ہے جب کہ کوشش میں جیت ہے یا جیت کی طرف ایک قدم۔ خوف و امید کے درمیان آگے بڑھنے کا نام کوشش ہے۔
انسان کو اپنی ہمہ رنگ سماجی زندگی کے باعث دوسرے تمام جانداروں میں امتیاز حاصل ہے اور انسانی معاشرے کا بڑا شرف تعاون و ہمدردی کی خاصیت ہے۔ زندگی کی وحشتوں اور مستقبل کی غیر یقینی کے خوف سے نمٹنے کےلیے یہ معاشرے کا اجتماعی ہتھیار ہے۔ شاعرِ مشرق اقبال، نظم ہمدردی میں ایک بلبل اور جگنو کا ذکر کرتے ہیں کہ جب اندھیری رات میں آشیاں سے دور بلبل راہ رستہ بھٹکنے کے ڈر سے فغاں بلند کرتا ہے تو ایک ننھا سا جگنو اپنی روشنی کے ذریعے اسے راہ دکھانے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ یہ تو ایک تمثیل تھی۔
فطرت کی ستم ظریفی کا شکار دنیا کے تمام جاندار ہوتے ہیں مگر ہمدردی و باہم تعاون سے تعمیر اور دوسروں کےلیے آسانی پیدا کرنا نوع انسانی کا ہی اعزاز ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
یہ بات دیگر کہ انسان نے اپنے شعور کا اس کے برعکس اکثر استعمال کیا۔ جنگیں، خوں ریزیاں، سازشیں، ہوس دولت و طاقت اور ان کے ناجائز استعمال نے زمین پر انسانی زندگی کو ایک المیہ بنادیا۔ ورنہ اسی شعور کا دوسرا رخ اور ہمدردی و تعاون کا نتیجہ ہے کہ جب دیگر حیوانات بیمار ہوتے ہیں تو پڑے تڑپتے رہتے ہیں جب کہ بیمار انسانوں سے شفا خانے بھرے ہوئے ہیں اور علم و تحقیق کے ذریعے انسان علاج کےلیے نئی نئی دوائیں اور طریقے تلاش کررہا ہے بلکہ یہ انسان ہی ہے جو دیگر جانداروں کے درد کو سمجھ سکتا ہے اور انھیں بھی سنبھالتا ہے۔
آہ! زندگی بے شمار لوگوں کو ایک وقت اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے جب تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں۔ کوشش کرنےسے بھی دل تھک سا جاتا ہے۔ لوگوں سے کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ علم اور بصیرت کے آگے دھند چھا جاتی ہے۔ انسان کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اب وہ کیا کرے، کوئی رستہ ہی نظر نہیں آتا تو کس رستے پر جائے۔ ایسے وقت بھی ایک سہارا باقی رہتا ہے۔ دعا کا سہارا۔ اپنی امیدیں اس سے منسلک کرنا جو تقدیر کے تمام میکنزم کا علم اور کائنات کے تمام عوامل پر قدرت رکھتا ہے۔ جو نہاں چیزوں سے آگاہ ہے اور عیاں چیزوں کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ جو کوششوں کو بارآور کرتا اور امیدوں کی آخری منزل ہے۔
مگر کیا ضروری ہے کہ ہم دعا کا سہارا تمام سہارے ختم ہونے کے بعد ہی تھامیں۔ دعا تو اس وقت بھی ضروری ہے جب تھوڑی سی امید باقی ہو۔ دعا اُس امید کو مرنے نہیں دیتی۔ جب علم پر دھند نہ چھائی ہو۔ دعا علم میں اضافہ کرتی ہے۔ جب لوگوں کی مہربانی زندہ ہو۔ دعا اسباب پیدا کرتی ہے۔ جب کوشش کرنے کا کچھ حوصلہ باقی ہو۔ دعا کوششوں کو نتیجے سے ہم کنار کرتی ہے۔ درحقیقت دعا کوشش کا ہی ایک حصہ ہے۔ ہم اللہ سے سب سہارے آزمانے کے بعد ہی مدد کیوں مانگیں، سب سے پہلے کیوں نہیں۔
(ختم شد)