Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Leadron Aur Masihaon Ki Talash

Leadron Aur Masihaon Ki Talash

لیڈروں اور مسیحاؤں کی تلاش

ہمیں ہمیشہ سے لیڈروں کی تلاش رہی ہے۔ ہمارے درد، ہماری آرزوؤں اور ہماری تشنہ کامیوں کو ایک مسیحا کا انتظار رہا ہے۔ اس تلاش میں ہم کون کون سے در پر نہ گئے۔ کس کس کو نہ پوجا۔ ہم نے ہر ادا، ہر لباس اور ہر نوع کے لیڈر سے امیدیں وابستہ کیں۔ جس کسی نے ذرا دعویٰ مسیحائی کیا ہم نے اسے مان لیا۔ ہم نے کیا، ہماری نا آسودہ آرزؤں، ہماری شکستہ توقعات نے مانا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے مسیحا تخلیق کیے اور پھر انہیں مصلوب کر دیا۔

ہم سے زیادہ قابل رحم قوم کون سی ہوگی جس کے بےہنر لوگ دعویٰ مسیحائی کریں اور اعجاز مسیحائی رکھنے والے گمنام رہیں یا کنارے کنارے چلیں کیونکہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ بعد ازاں اس قوم کے ہاتھوں ہی مصلوب نہ ہو جائیں۔ اس کہانی کے عوام کی طرح جو ہر سال ایک مخصوص روز شہر میں داخل ہونے والے پہلے اجنبی کو اپنا بادشاہ مان لیتے ہیں اور ایک سال پورا ہونے پر اس کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ پھر اسی طریقے سے ایک نیا بادشاہ بناتے ہیں۔ ہم اپنے مسیحاؤں سے ایک قاتل قسم کے رومان میں مبتلا ہیں۔ جلدی جلدی انہیں لیڈر بناتے ہیں، اکتا جاتے ہیں، بد دل ہو جاتے ہیں اور جلدی جلدی بدل ڈالتے ہیں۔ وہ ہماری آرزؤں پر پورا نہیں اترتے۔

بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ ایک ایسی مملکت جو اسلام کے "سماجی انصاف" کے اصولوں پر قائم ہو۔ منزل دور ہو تو گلہ نہیں، یہاں تو ہم رستہ ہی بھٹک گئے۔ ہم نے ہر بار کارواں کے ساتھ شامل ہونے کی جستجو کی اور ہم ہر بار لوٹے گئے یا بھٹک گئے۔ چالیس برس تک بنی اسرائیل جیسے صحرا میں بھٹکتے رہے تھے، ستر برسوں سے ہم بھی وقت کے صحرا میں بھٹک رہے ہیں۔ جہاں سے چلتے ہیں کچھ عرصے بعد وہیں آپہنچتے ہیں۔

جہموریت میں کوئی جہانگیر نہیں ہوتا جس کے دروازے پر زنجیر عدل آویزاں ہو۔ مگر لکھا گیا ہے کہ یہاں پارلیمان ہوتی ہے جہاں عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ مگر کیا انہیں عوام کے سوز جگر سے آگاہی ہے؟ کیا وہ ہمارے "ہمدرد" ہیں؟ کیا ان کے ایوانوں اور محلوں کی بلند و بالا دیواروں کو چیر کر ہماری فریاد ان تک پہنچتی ہے؟ کیا ہماری طرح ان کے لبوں پر بھی آہیں اور آنکھوں میں اشک ہیں؟ کیا وہ ہمارے حقیقی راہبر ہیں؟ یا وہ بھی کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں؟

گرچہ ہم رستہ بھٹک ہی کیوں نہ گئے ہوں۔ ہم نے بے اعتبار لیڈروں اور بےہنر مسیحاؤں پر اعتبار ہی کیوں نہ کیا ہو۔ ہمارے فہم میں کمی ہو۔ ہماری مرضی کمزور اور ہماری ہمت کوتاہ ہو، مگر آسمانوں کی قسم، ہماری مصیبت سچی ہے، ہمارا درد خالص ہے۔ ہمارا بار بار فریب کھانا ہی ثابت کرتا ہے کہ ہم اپنی طلب میں صادق ہیں۔ ہمارا ہیجان ہی بتاتا ہے کہ ہم بے قرار ہیں اور یہ بے قراری اب حد سے گزر چکی۔ ہماری آہیں اب لبوں کو چیر رہی ہیں۔

اے قوم! جب فغاں ذرا تھم جائے تو اس بات پر غور کرنا۔ تمہارے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ تمہاری قسمت بدلنے والے کہیں ان میں ضائع تو نہیں ہو رہے؟ سڑکوں پر یا ورکشاپوں، فیکٹریوں، بنگلوں، بھٹوں اور ہوٹلوں میں مشقت میں تو نہیں گُھل رہے؟

تمہارے متوسط طبقے کے کروڑوں تعلیم یافتہ لوگ سیاست میں رہبری کے دائرے سے ہی باہر ہیں۔ ان میں دیانت دار بھی ہوں گے اور مخلص بھی۔ تمہاری مسیحائی کا ہنر رکھنے والے کہیں ان میں تو موجود نہیں؟

قائد اعظم، ابراہام لنکن اور نیلسن منڈیلا جیسے لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خاص حالات، خاص معاشرے اور انتہائی خاص کردار کے تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بقول شاعر مشرق۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

عام حالات میں لیڈر معاشرے کی زمین سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ آگے آتے ہیں جب معاشرہ انہیں آگے بڑھنے کی جگہ دیتا ہے۔ غلامی کی ذہنیت پر قائم معاشرے میں لیڈر پیدا نہیں ہوتے۔ آقا اور غلام پیدا ہوتے ہیں۔

فرض کیجیے، صادق خان اگر پاکستان میں اس صلاحیت، محنت اور اس پس منظر کے ساتھ ہوتا تو کیا وہ حاصل کر سکتا جو اس نے برطانیہ میں کیا؟ یا اسے دوسری "صلاحیتوں" کی ضرورت پڑتی۔

سوچیے! شاید لیڈروں کی تلاش کا فارمولا مل جائے۔ شاید مسیحاؤں کا انتظار ختم ہوسکے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad