Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Khwab Dekhta Insan

Khwab Dekhta Insan

خواب دیکھتا انسان

جاگتی آنکھوں کے خواب ہمیں بہت سے خوش کن باغوں، دلفریب وادیوں، گہری کھائیوں، مشکل گھاٹیوں اور انجانی بھول بھلیوں میں بھٹکا دیتے ہیں۔ ساری حیران کن ایجادات، سارے کارنامے اور بہت سی جنگیں (صحیح یا غلط) ان خوابوں کے مرہون منت ہیں۔ سکندر دنیا کو فتح کرنے کا خواب لیے یونان سے گھومتا ہندوستان پہنچ جاتا ہے۔ فرغانہ کے بابر کا بچپن ختم نہیں ہوتا کہ اسے لڑائیاں لڑنا پڑتی ہیں۔

ابتداء میں اس کی جنگیں صرف اپنی بقاء کے لیے تھیں پھر وہ اپنے خوابوں کے لیے مسلسل لڑتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت افغانستان اور آخر کار ہندوستان کو فتح کر کے شہنشاہِ ہند کا لقب پاتا ہے۔ وہ جان بچاتا ایک بچہ بابر، جس کی آنکھوں نے خواب دیکھنا سیکھ لیے تھے، ایک روز شہنشاہِ ہند ظہیر الدین بابر بن جاتا ہے۔ خوابوں کے بیج انسان کے دل و دماغ میں دبے ہوتے ہیں بس وہ ایک لمحہ ہوتا ہے، وہ لمحہ جو کسی رزق کی مانند عطا ہوتا ہے، جس میں اچانک خوابوں کی کونپل، بیج کو چیر کر دل کی زمیں پر لہلہانے لگتی ہے۔

کب؟ یہ اکثر انسان کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا بس احساس تب ہوتا ہے جب یہ کونپل اچانک سے موجودگی کا احساس دلانے لگتی ہے۔ کچھ خواب اتنے پھل پھول جاتے ہیں کہ ان کی شاخیں اور پتے آنکھوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ کچھ اتنے مہک بار ہوتے ہیں کہ دوسروں کو بھی مہکا دیتے ہیں۔ کچھ پر ایسا ثمر لگتا ہے کہ زمانہ بھی ان کا پھل کھاتا ہے۔

دنیا کی وسعتوں میں محوِ فکر یہ دیوانے فلسفی، خاموش لیبارٹریوں میں کام کرتے سائنس دان، کتابوں کے درمیان بیٹھے اسکالرز، قائدِاعظم، ابراہام لنکن اور نیلسن منڈیلا جیسے قوم ساز رہنماء اور ادیب رضوی، عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے سماجی رہنما اسی قسم کے خواب دیکھنے والے قبیلے کے لوگ ہیں۔ مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کے خواب ابھی کونپل کی حالت میں ہوتے ہیں کہ حوادث کی آندھیوں کے باعث ٹوٹ کر گر جاتے ہیں، زمانے کی سخت دھوپ انھیں جھلسا دیتی ہے۔

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا۔

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔

مقامِ حسرت، کچھ لوگوں کے خواب دل کی زمیں میں ہی دبے رہتے ہیں۔ وہ خوابوں کے پھلنے پھولنے کے تمام مراحل سے انجان رہتے ہیں اور پھر اس زمیں پر حسرتوں اور مایوسیوں کے جھاڑ لگ جاتے ہیں۔ آگہی تکلیف دہ ہے مگر یہ آگہی ہی شرفِ انسانی ہے۔ خوابوں کے بیج دل میں پہلے سے دبے ہوتے ہیں مگر یہ لمحہ آگہی کا ہوتا ہے جس لمحے اس بیج سے کونپل سر باہر نکالتی ہے۔

خوابوں نے لوگوں کو جینا سکھایا اور ان کے لیے ہی لوگوں نے سر کٹوائے۔ ان خوابوں نے نقشے بدلے، سلطنتیں الٹ پلٹ کیں۔ خوابوں کے باعث بستیاں آباد ہوئیں اور خوابوں نے تاریخ کے دھارے بدلے۔ ان خوابوں نے سینوں میں جو آگ انڈیلی اس کی تپش سے لوگ قطب شمالی و جنوبی کے برف زاروں کے پار اور برفانی چوٹیوں کے اوپر پہنچے۔ فضاؤں کا سینہ چھیرا اور سمندر کی تہہ میں اترے۔

خواب دیکھنے کا نتیجہ ایک تکلیف ہے۔ مگر خواب نہ دیکھنا، ان سے انجان رہنا بھی اذیت ہے۔ انسان کو انتخاب کرنا ہے کہ اس نے کون سی اذیت سہنی ہے۔ جس نے خواب دیکھا اس نے تکلیف اٹھائی، پہلی پہلی آگہی کی، دوسری جدوجہد اور مخالفتوں سے نمٹنے کی۔ مگر جس نے خواب نہ دیکھے، جو ان سے انجان رہا وہ بھی اذیت میں ہے۔ اور اس میں سب سے بڑی اذیت زندگی کے ضیاع کا پچھتاوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قریب المرگ بڑے پچھتاؤں میں سے ایک یہی ہوتا ہے۔

میرے ہم نشیں میرے سامنے میری بزدلی نے اجاڑ دیں

وہ جو بستیاں تھیں جمال کی، وہ جو رستے تھے وصال کے۔

وہ کیا شے ہے جو انسان کو باد مخالف کے سامنے ناہموار رستے پر چلنےکا حوصلہ دیتی ہے۔ وہ کیا رمز ہے جو انسان کے درد سہنے کی حد کو بڑھا دیتا ہے۔ وہ کیسا سرور ہے جو تکلیف کو بھی لطف میں بدل دیتا ہے۔ وہ ہے ایک اونچا، بلند خواب، اس کی جستجو اور اس کے لیے جدوجہد۔ مشکل ترین خواب وہ ہے جو ان زمانوں میں دیکھا جائے جب حالات اور ماحول اس کے خلاف ہو۔ غلام معاشرے میں آزادی کے خواب دیکھنے والے ہی خواب اور آگہی کی اس اذیت سے واقف ہیں۔

خواب، جاگتی آنکھوں کے خواب۔ درد، اذیت، جدوجہد، لطف، اطمینان۔ یہ سب ملتا ہے، مگر یہی تو زندگی کا حاصل ہے۔ انسان ہی خواب دیکھتا ہے دیگر جاندار نہیں۔ یہ انسان ہی کا اعزاز ہے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan