Jaam e Zeest Khali Hone Se Qabl
جام ِ زیست خالی ہونے سے قبل
کس قدر خوف ناک احساس ہے کہ کہا جائے کہ زندگی ضائع ہورہی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وقت ضائع ہورہا ہے تو ہمیں صورتِ حال کی سنگینی کا مکمل ادراک نہیں ہوتا۔
وقت کیا ہے۔ زندگی ہی تو ہے۔ وقت کا لمحہ لمحہ مل کر زندگی بنتا ہے۔ اگر آپ ایک عمارت سے ایک ایک اینٹ اکھاڑیں تو آپ محض ایک اینٹ نہیں اکھاڑ رہے ہوتے بلکہ پوری عمارت گرا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ایک اینٹ عمارت کی اکائی ہے ایسے لمحہ وقت کی اکائی ہے اور وقت کا دوسرا نام زندگی ہے۔ اس سے زیادہ اذیت ناک احساس یہ ہے کہ ہم اس زندگی کو بے جا پریشانیوں، خود ساختہ غموں، ماضی کے پچھتاؤں، بیتے وقت کی تکلیف دہ یادوں اور سینے سے لگائے روگوں کی نذر کردیں۔ فلاں چلاگیا اور فلاں آیا نہیں۔ اُس نے مجھے یہ کیوں کہا اور میں نے ایسا کیوں نہیں کہا۔ اُس نے میرے ساتھ یوں کیوں کیا اور میں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ جو فلاں کے پاس ہے کیوں ہے اور میرے پاس کیوں نہیں ہے۔ ہر وقت کے ہلے گلے، تفریح اور لمحاتی مسرت میں بسر ہونے والی زندگی بھی ضائع ہونے کے زمرے میں آتی ہے بہرحال اُس میں وقتی لذت و مسرت ہوتی ہے۔ یہ زندگی تو حسرت زدہ آنکھوں کی مثل اس سے بھی تہی ہوتی ہے۔ ضائع ہونے کی بات آئی تو ہماری قومی زندگی بھی ایسی ہی سطحیت کے گرد ضائع ہورہی ہے۔ صبح اخبار اٹھائیں تو صفحۂِ اول پر بیانات، ہر بیان کے چند جوابی بیانات اور پھر جواب الجواب بکھرے ہوتے ہیں۔ ٹی وی اسکرینوں پر یہی چھنگاڑ اور سوشل میڈیا پر یہی ہنگامہ رہتا ہے۔ اس سے مسئلوں کا حل کبھی نکلا نہیں اور بحث کا بازار کبھی ٹھنڈا نہیں پڑا۔
وقت ہمارے پاس ایک مہلت ہے۔ مہلت بذاتِ خود وقت مقررہ سے قبل ایک نعمت ہے۔ مہلت تمام ہوتی ہے تو وقت موجود چیزوں کو غائب اور پیچھے کی چیزوں کو آگے کردیتا ہے۔
مہلت، وقت اور زیست کا تانا بانا کیا ہے، اس کی بہترین توضیح چھتیس برس قیدِ بےگناہی میں گزارنے والا آرچی ولیمز ہی کرسکتا ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے والا ہر لمحہ اس کی حیات کم اور عمر بڑھا رہا تھا۔ آرچی کےلیے انصاف کی جنگ لڑنے والی فلاحی تنظیم کی وکیل وینیسا پوٹکین کی کوششوں کو کامیاب ہونے میں بیس برس لگے۔ ان بیس برسوں میں آرچی ولیمز کے کے پاس امید اور صبر کاسہارا اور وینیسا کے پاس امید اور کوشش کے ہتھیار تھے۔ زندگی اور وقت کی اہمیت کا اندازہ اور ان کا تانا بانا ان دونوں سے بہتر کون بیان کرسکتا ہے۔ بائیس برس کی عمر میں کسی اور کے کردہ جرم میں جیل جانے والا سیاہ فام آرچی جب باہر آیا تو وہ سفید بالوں کی عمر میں داخل تھا۔ وہ انسٹھ برس کا ہوچکا تھا۔
اس کا جسم اب ڈھل چکا ہے۔ قید میں گزرے سخت و طویل وقت نے اس کی آنکھوں میں لپک جانے والی چمک ماند کردی ہے مگر وہاں امید کی لو یقیناً روشن نظر آتی ہے۔ آزادی کی فضا میں آرچی کے ابتدائی جملوں میں سے چند یہ تھے کہ اب بھی بہت سے بے گناہ لوگ قید میں موجود ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو پچاس یا زائد برس گزر چکے ہیں۔ ان کے پاس کوئی امید نہیں۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا ہی ہوتا ہے، جب قدرت آدمی کی آنکھ اندر سے کھولتی ہے، جب انسان ادراک کے مرحلے سے گزرتا ہے، بقول مولانا رومی کہ زخم سے روشنی اندر پڑتی ہے، تو وہ یوں ہی ہوجاتا ہے۔ وہ بلند ہوجاتا ہے، سطحی غم اور پچھتاوے نیچے رہ جاتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے، کتنے خوش گوار موسم، خوشی کے کتنے لمحے، کیسے یادگار دن اور کتنے تہوار آرچی نے ان سلاخوں کے پیچھے گزاردیے، گھناؤنے ترین الزام کے تحت جرم ناکردہ کی سزا بھگتتے اس کے کتنے خواب کھوگئے۔ امریکی حکومت، لوزیانا کی ریاستی حکومت یا اس دنیا کی کوئی فانی طاقت آرچی ولیمز کو اس کا وقت نہیں لٹاسکتی، اس کی سہی گئی تکلیف نہیں مٹاسکتی مگر جب وہ بولتا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں:
I went to prison but I never let my mind go to prison.
اس کے برعکس کروڑوں لوگ اپنے خود ساختہ غموں اور گئے گزرے پچھتاؤں کی سلاخوں کے پیچھے حیات تمام کردیتے ہیں۔ آزاد فضاء میں رہتے بھی وہ آزاد زندگی میں سانس نہیں لے پاتے۔ ان کے روگ زندگی سے بڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کا ادراک کرنا بھول جاتے ہیں کہ وقت کی باگ ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے اور ہر گزر جانے والا لمحہ ان کے پچھتاؤں کی فہرست میں نیا اضافہ ہے۔
زندگی جینے اور وقت کو استعمال کرنے کا ہنر فعالیت اور صبر کا توازن ہے۔ آج جو انجام دینا ہے وہ کل پر نہ رہے۔ جو کل ملنا ہے اس کےلیے آج ہڑبونگ نہ مچاؤ، بے چینی اور ذہنی کشیدگی نصیب ہوگی۔ جو گزر چکا ہے اس کےلیے اُداس ہونا عبث ہے، ڈیپریشن کی تاریک سرنگ میں جا گُھسو گے۔ جس منزل پہ پہنچنے کےلیے طویل سفر لازم ہے اسے اپنے مستقر پر حاصل کرنے کی خواہش حسرتوں کو ہی جنم دیتی ہے۔ شارٹ کٹ کی تمنا غلط راستوں پر یا منفی ذہنی کیفیتوں میں لے جائے گی۔ جو کل گزر گیا اور جو کل آنے والا ہے اس کے درمیان لمحۂِ موجود ہی آپ کا اپنا ہے۔ اسی مانند وہی شے آپ کی ہے جو اس وقت ہاتھ میں ہے۔ گزر جانے والی شے اور آنے والی شے کے درمیان جو وقفہ ہے اسے ہم "جینا" کہتے ہیں۔ یہی زمانہ حال ہے۔ سارے فلسفے اسی میں جینے کی تلقین کے ہیں۔
آرچی ولیمز کے پاس دو انتخاب تھے۔ وہ گزرے وقت کے جواز میں باقی عمر قصّۂِ غم اور داستان اَلم بن کر رہ جاتا یا امید کا پیغام، ہمت کی مثال اور زندگی کا استعارہ بن جاتا۔ اُس نے ثانی الذکر کا انتخاب کیا۔ اس کا سبق ہے کہ ایک نئی زندگی کا آغاز۔ کبھی زندگی ہم سے وہ سلوک کرتی ہے جس کے ہم مستحق نہیں ہوتے لیکن آپ اس سے وہی سلوک کریں جس کی یہ مستحق ہے۔
آپ کا، ہمارا انتخاب کیا ہے؟