Hamas Ben Gurion Nehar Amar Yahoodi Mazalim
حماس بینگورین نہر امر یہودی مظالم
کیا فلسطینیوں کی نسل کشی میں حماس کو ہتھیار کی طرح استمعال کیا جا رہا ہے۔ کیا مشرق وسطی میں جو ہو رہا ہے۔ جو ہم سمجھ رہے ہیں یا جو ہمیں دیکھایا جا رہا ہے وہ ہی سچ ہے۔ اسے سمجھنے کیلیے ضروری ہے فلسطینی تنظیمیوں کے بارے میں جانا جائے۔
1948 میں یہودیوں کی فلسطین آمد کے بعد فلسطینیوں نے بڑے پیمانے پر حجرت کی جس واقع کو النکبہ کانام دیا گیا اور اس واقع کے بعد کے سالوں میں، مختلف فلسطینی تنظیمیں ابھریں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا الگ نظریہ اور فلسطینی آزادی کے حصول کے لیے نقطہ نظر تھا۔ ان تنظیموں میں شامل ہیں:
PLO فلسطین لبریشن آرگنائزیشن:
فلسطینیوں کی نمائیندگی کرنے والی سب سے بڈی تنظیم ہے جو 1964 میں قائم کی گئی۔ یاسر عرفات کی قیادت نے شروع میں مسلح مزاحمت کی مگر بعد میں اسرائیل، فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیئے سفارتی انداز اپنایا گیا۔
الفتح: پی ایل او کا سب سے بڑا گروپ 1950 کی دہائی کے آخر میں قائم ہوئی اس تنضیم نے ابتدائی سالوں میں فلسطین کی مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ الفتح کا نظریہ سیکولر ہے۔ جو فلسطینیوں کے اپنے وطن واپس آنے اور ایک آذاد ریاست کے حصول پر زور دیتا ہے۔
حماس: ایک اسلامی مزاحمتی تحریک 1980 کی دہائی کے آخر میں ابھری جس نے PLO کے تسلط کو چیلنج کیا۔ حماس کا نظریہ فلسطینی سیاست میں اسلامی اصولوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کے پختہ عزم کے ساتھ جوڑتا ہے۔
حماس جسے پاکستانی اور مسلم کمیونٹی میں فلسطین کی آواز سمجھا جا رہا ہے اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے جس کے بارے میں (The Express Tribune) 30 جون 2023 کو کہتا ہے۔
Not many people are aware of the fact that it was Israel which had helped the creation of Hamas as a counter to PLO.
(PCPSR) Palestinian Center for Policy and Survey Research کےجون 2023 کے سروے کے مطابق حماس اسرئیل حملے سے پہلے الفتح اور PLO کے مقابل میں غیر مقبول تھی۔ اسے اسرائیل حملے کے بعد شہرت ملی جس حملے میں اسرائیل کو زیادہ کچھ نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ فلسطین کو اُجاڑ دیا گیا۔
اسرائیل غزہ پر کیوں قبضہ کرنا چہتا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس اسرائیل کی حمایت میں اتنے سخت کیوں ہیں یقیناً اس سب کا پیسوں سے تعلق ہے، ظاہر ہے لیکن وہ نہیں جو ہم نے سوچا ہوگا، میرے خیال میں ہم سب نے یہ سمجھا ہوگا کہ یہ غزہ میں تیل کی دریافت ہے۔ بلکہ نہیں سوئز نہر جو کے مصر میں واقع ہے جس سے 9 بلین ڈالر کی کمائی کی جاتی ہے ہر سال اور یہ سب کمائی مصر کو جاتی ہے کیونکہ یہ نہر مصر میں ہے لہذا یہ سارا منافع بھی مصر کماتا ہے اسے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی تبدیل کرنا چاہتے ہیں جو غزہ کے اوپر بن گوریان نہر بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اس وقت یہی ہو رہا ہے جو ٹی وی اور سوشل میڈیہ پر دیکھایا جا رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے جبکہ یہ سب کچھ فلسطین میں بنائی جانے والی نہر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکومت نے اس زمین کو نہر بنانے کے لیے جوہری حملے کا منصوبہ بنایا ہے تا کہ وہ اس زمین کو استعمال کرسکیں کیونکہ وہ زمین چٹانی ہے جبکہ نہر سوئز ریتیلی زمین پر کھدائی کرکے بنائی گئی ہے، جس کی چوڑئی کم ہے۔
اگر یہ نہر بن جاتی ہے تو ان کے پاس اس سے زیادہ زمین ہوگی۔ جس سے ایک وسیع نہر بننے کا امکان ہے جس میں ایک ہی وقت میں 2 جہاز گزر سکتے ہیں جبکہ نہر سویز میں سے ایک وقت میں ایک جہاز گزر سکتا ہے۔ آپ کے خیال میں یہ نہر کہاں خالی ہوتی ہے؟ نہ صرف بحیرہ روم میں بلکہ بن گوریون نہر غزہ کے دائیں جانب خالی ہوگی۔ لہذا ہم یہاں نسلی صفائی دیکھ رہے ہیں۔ نسل کشی تمام فلسطینیوں کو غزہ کے جنوب میں حجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے اور وہاں بھی نہر بنانے کے لیےضرورت کی زمین کو خالی کیا جارہاہے۔