Youm e Khawateen
یوم خواتین 2025ء

8مارچ 2025ء، آج کا دن یوم خواتین کے طور پر ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم اور خاص دن، جس میں بہت ساری وہ باتیں جو کہ ہمارے ملک میں، معاشرے میں خواتین کے حقوق کے خلاف جاتی ہیں اس کو بیان کرنے کے لیئے اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس دن کو کچھ ایسی خواتین کے ہاتھ میں دے دیا گیا، اب یہ پری پلین تھا یا حادثاتی طور پہ ایسا ہوا، کچھ ایسی غیر ذمہ دار خواتین کو سونپ دیا گیا کہ جب آج سے تقریباََ پانچ چھ سال پہلے اس تاریخ پر جو جلسے جلوس اور پروگرامز ہوتے تھے۔
8 مارچ کے حوالے سے، اس میں "میرا جسم میری مرضی" کا جو نعرہ استعمال کیا گیا وہ نعرہ غلط نہیں تھا۔ ظاہر سی بات ہے آپ کے جسم پر آپ کی مرضی ہونی چاہیئے کہ آپ اپنے جسم کو کس کے ساتھ کس طرح سے وابستہ کرنا پسند کرو گے، کس طرح سے استعمال کرنا پسند کرو گے، یا نہیں کرو گے۔ یا کسی کو اپنے آپ کو کیسے چھونے کی اجازت دو گے، یا نہیں دو گے۔ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ نعرہ برا نہیں تھا مگر اس کو جس طرح سے بیان کیا گیا، جس طرح سے پیش کیا گیا، پبلک میں آ کر جس واحیات اور بیہودہ طریقے سے اس کی تصویریں اور پوز بنا کے اور واہیات خواتین کے ہاتھوں یہ استعمال ہوا۔ مادر پدر آزاد خواتین کے ہاتھوں استعمال ہوا۔ اس نے اس نعرے کی افادیت کو ختم کیا کرنا تھا بلکہ اسے کسی گٹر میں گرا دیا۔
بالکل میرا جسم میری مرضی آپ کا جسم آپ کی مرضی۔ یہ ایک انسانی بنیادی حق ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے کہ جب آپ حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں آپ کے بہت سارے انسانی حقوق ہیں۔ اس میں آپ رشتوں سے جان نہیں چھڑاتے بلکہ ہر رشتے کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ صرف فرائض کے لیئے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ کے حقوق بھی ہیں۔ جب آپ فرائض ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کے اوپر آپ کے حقوق لازمی ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اسے ادا کریں۔
پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک خواتین کے جتنے بھی حقوق ہیں۔ پہلے تو پیدائش پہ اسکا پہلا حق کہ اسے بخوشی قبول کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسکی وراثت میں جائیداد میں اسے بھی اتنا ہی وارث سمجھا جائے جتنا کہ کسی بیٹے کو سمجھا جاتا ہے۔ زندہ رہنے پر بلکہ کھانے میں بھی جو بوٹیاں آپ اپنے بیٹوں کے لیئے بچاتی ہیں اور بیٹیوں کے لیئے شوربہ رہ جاتا ہے، اس چیز کو اس بخیلی سے نکلنے کے لیئے ضرورت اس بات کہ ہے کہ والدین یہ سمجھیں کہ اس بچے کو اسی طرح سے اتنی ہی توانائی کی ضرورت ہے جتنی اس لڑکے کو ضرورت ہے، بلکہ اس لڑکے سے شاید کسی ایک جگہ پر زیادہ ضرورت ہے کہ کل کو اس نے ماں بننا ہے اس نے اس سارے تخلیقی مرحلے سے گزرنا ہے۔
ایک نئی اولاد کو دنیا میں لے کر آنا ہے، تو جسمانی طور پر، ذہنی طور پر، نفسیاتی طور پر اس بچی کو جس نے کل کو بڑا ہونا ہے، زیادہ طاقت اور توانائی کی ضرورت ہے تو اس طاقت کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اس کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ اس کو شروع سے اچھی تربیت میں رکھیں اس کو ہمیشہ یہ مت بتائیں کہ تم نے یہ کرنا ہے، کرنا ہے، کرنا ہے، اسے یہ بھی بتائیں کہ جہاں بیٹا آپ تھک جاتے ہو، جہاں پہ آپ چیخنا چاہتے ہو، جہاں پہ آپ اواز اٹھانا چاہتے ہو۔ جہاں پہ آپ انکار کرنا چاہتے ہو، آپ کو ڈرنا نہیں ہے، آپ ہمارے سامنے بڑی جرات کے ساتھ اس کام سے، لوجک بتا کر، وجہ بتا کر، آپ وہاں انکار کر سکتے ہو۔ یہ بہت بڑا حق ہے۔
ہمارے ہاں خواتین کو انکار کرنے کا حق نہیں دیا جاتا اور تو اور کہ جب باقی سارے میدانوں کے بعد شادی کا بھی معاملہ آتا ہے، تو وہاں پر بھی رشتہ کرنے سے انکار کرنا مرد اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے کہ جی میں نے کسی کو رشتہ بھیجا، اس نے مجھے انکار کر دیا۔ آپ نے رشتہ کسی کو بھیجا، یہ آپ کا حق تھا کہ آپ کسی کو پروپوز کریں، لیکن وہ آپ کو قبول کریں یا نہ کریں یہ اگلے کا حق ہے۔ اسے آپ تسلیم کیجیئے۔ آپ زبردستی گن پوائنٹ پر کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ بہت بڑا حق ہے، جو ہمارے ہاں سب سے پہلے چھیننے والے ہمارے اپنے ماں باپ بھائی بہن ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر کسی کا رشتہ طے کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ انسان ہیں کٹھ پتلی نہیں ہیں۔
ایک عورت، ایک لڑکی کو اس بات کا حق ہے کہ اسے زندگی کس کے ساتھ گزارنی ہے، اس کا آخری فیصلہ اس لڑکی کا ہونا چاہیئے۔ آپ اس کے بھائی ہیں، آپ اس کے والد ہیں یا اگر خاتون بیوہ ہے مطلقہ ہے وہ دوبارہ سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اس کا ٹھیکیدار بن کر اس کا بیٹا نہیں کھڑا ہو جائے گا، وہاں پر آپ سب ایک دوسرے کے ساتھ مشورہ کریں گے۔ پوچھیں گے، لیکن اگر بیٹا خود ہی غیر ذمہ دار ہے، آوارہ ہے، لوفر ہے یا بھائی غیر ذمہ دار ہے، یا اسی طرح سے باپ کسی چکر میں پڑا ہوا ہے، وہ کس طرح سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتی۔ تم زندگی کا یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ یہ بہت بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں اور یہ سارے حقوق اللہ نے جب دے رکھے ہیں۔
جو قوانین کے کاغذوں میں پنے کالے کئے گئے ہیں، تو عملی طور پر بھی خواتین کو ملنے چاہیئں۔ دنیا بھر کی خواتین کو ہم اپنی ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس" کی جانب سے تہہ دل سے 8 مارچ 2025ء کے لیئے بہت ساری نیک تمنائیں اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس دن کے حوالے سے وہ تمام ذمہ داران وہ تمام مرد جو ذمہ دار عہدوں پر موجود ہیں۔ جو ایک اچھے اقدام میں اپنا عملی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔
ان سب سے گزارش ہے کہ اس اقدام میں ساتھ دیجیئے اور آپ کی ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، بیٹی بھی ہے، آپ کی بیوی بھی ہے اور سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی حیثیت میں وہ آپ کی بیوی کے طور پر ہوتی ہے۔ تو برائے مہربانی خواتین پر لطیفے بنانے کی بجائے خواتین کی ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے، ان کا حوصلہ بڑھائیئے۔ وہ آپ کی دنیا اور آپ کی آبادی کا آدھا ہیں۔ آدھی آبادی کو لولا لنگڑا کرکے، ایک کونے میں پھینک کر، اس کی توہین کرکے، آپ دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ یہی فرق ہے آپ میں اور باقی دنیا میں۔ سوچیئے کہ آپ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟