Viral Sirf Gandagi
وائرل صرف گندگی
کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ غلط بات اور گندگی ہی وائرل ہوتی ہے؟ کیونکہ ہم کہنے کو تو خود کو انتہائی شریف، نیک اور پرہیزگار دکھاتے ہیں، لیکن قندیل بلوچ جب نعت پڑھتی تھی تو کسی نے اسے سننا پسند نہ کیا، ملی نغمے گاتی تھی تو کسی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن جیسے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قندیل بلوچ آفریدی کے نام پر اپنے کپڑے اتارنے کی آفر کر رہی ہے تو منٹوں میں لاکھوں لوگ اسکے مداح بن جاتے ہیں، انتظار کرتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، تماشے کے لئے اپنی آنکھوں سے رال ٹپکاتے ہیں، اس وقت ان کی شرافت اور پرہیزگاری جاتی ہے تیل لینے۔
لاکھوں فالوور وہ شریف النفس ڈرامے باز ہوتے ہیں جو اس کے کومنٹ بکس میں جا کر اپنی مردانگی اور اپنے جسمانی اعضاء کو خود نمائش کے لئے پیش کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اگر وہ یہ سمجھ جائیں کہ اس نامحرم لڑکی کے بہانے اپنی ماں بہنوں کو بے لباس کرتے ہیں کیونکہ ایک کو دیکھا تو گویا سب کو دیکھ لیا۔ نہ آنکھیں جھکانی یاد رہتی ہیں نہ حیا داری کا پاس رہتا ہے اور تو اور آج کے ٹک ٹاک پر جا کر ہمارے لوگوں کی مردانگی ملاحظہ فرمایئے کس لچر پنے کیساتھ عورتوں پر تبصرے کیئے جاتے ہیں۔
ان پر اپنی زبان کے خاندانی پھول برسائے جاتے ہیں اور پھر اسی جیسے باقی بازاری ذہن دھڑا دھڑ شیئر کرنے کا، لائیک کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ گندگی پر پہلے زمانے کے بے خبر لوگ بھی مٹی ڈال دیا کرتے تھے لیکن آج کے نام نہاد باخبر اور پڑھے لکھے، معزز، باعزت، مذہبی تک کہلانے والے لوگ اسی گندگی کو پلیٹ میں سجا کر اس کی کبھی قیمت لگاتے ہیں اور کبھی اسے آگے سے آگے مشتہر کرتے ہیں۔ مذہب تو چھوڑیئے ہم اخلاقی طور پر اس تنزلی میں گر چکے ہیں کہ اب ہمیں گٹر کی بو بھی بو نہیں لگتی بلکہ "سمیل" لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج جسے دیکھو سوشل میڈیا خصوصاََ ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ناچ گانے واہیاتی پر مبنی "کونٹینٹ" مواد بیچ رہا ہے۔ صرف پیسہ کمانے کے لیئے۔ عزت جاتی ہے جائے۔ پیسے تو دھڑا دھڑ آنے لگتے ہیں۔ حدیث شریف کا وہی حصہ مکمل ہوا کہ جس میں قیامت کی نشانیوں میں سے واضح نشانی بتائی گئی کہ "گھر گھر ناچ گانا ہوگا"۔ آج لوگ خود اپنی مرضی اور خوشی کیساتھ اپنے ہی نہیں اپنی ماں، بہنوں، بیٹیوں اور تو اور نانیاں، دادیاں تک مجرا کر کے مشہور اور مالدار ہونا کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ دولت تو کنجروں کے پاس "بھی" بلکہ کنجروں کے پاس "ہی" بہت ہوتی ہے لیکن عزت نہیں ہوتی۔ کاش ایسے بزرگ آج آ کر دیکھ سکیں کہ نہیں بابا جی عزت صرف پیسوں کی ہی ہوتی ہے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کوئی نہیں پوچھنا چاہتا۔ وہ زمانے گئے جب ماں، باپ اپنی بیٹیوں سے پوچھا کرتے تھے کہ میں نے تو لیکر دیئے نہیں لیکن تمہارے پاس۔
کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
کس نے دیئے ہیں یہ جھمکے؟
کیوں دیئے ہیں یہ جھمکے؟
آج تو خود کئی جہنمی مائیں اپنی بیٹیوں کو جھمکے کمانے اور جھمکے دلانے والوں کو پھانسنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ کیونکہ وہ بھی مان چکی ہیں کہ کوئی تم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟