Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mumtaz Malik/
  4. Taleemi Idare Ya Gunahon Ka Adda

Taleemi Idare Ya Gunahon Ka Adda

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا

میں اب تک اس سکینڈل پر اپنی کوئی رائے اس لیئے نہیں دینا چاہتی تھی کہ ہمارے ملک میں پروفیشنل جیلسی میں لوگ ایک دوسرے کے کاروبار پر، اداروں پر، کردار پر کیا کیا کیچڑ اچھالتے ہیں اور کیسے کیسے رقیق حملے کرتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک طرف اس یونیورسٹی کی ترقی کے قصے ہیں تو دوسری جانب یہاں گندگی کی کہانیاں۔

میں نے آج تک بہاولپور نہیں دیکھا۔ 25 سال سے فرانس میں مقیم ہوں۔ اس کافر ملک میں ہم نے آج تک انتظامیہ کی سرپرستی میں ایسی خبریں کبھی نہیں سنیں۔ ایک ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں عورت سے بڑا کوئی کاروبار ہی نہیں۔ عورت سے بڑی کوئی سیڑھی نہیں۔ عورت سے آگے کسی کے دماغ میں اور کوئی سوچ ہی نہیں۔ اس میں دین سے دوری نے آج کا دن دکھایا ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں غلاظتوں کے قصے عام ہیں۔

دین کے ٹھیکیدار ٹھنڈے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے ڈرامے کر رہے ہیں اور اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنا ملک کفر میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کو ایک کافر کی طرح اس دین کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر سے اسلام قبول کرنا ہوگا۔ ایک غیر مسلم کی طرح اس دین کی امان میں آنا ہوگا۔ وگرنہ ہمارے ملاوں نے یا تو دہشت گرد پیدا کیئے ہیں یا پھر اپنی ضد میں کاٹھے انگریز کھڑے کر لیئے ہیں۔ ہمارے یورپ میں پیدا ہوئی نسل جب ہم سے پوچھتی ہے کہ یہ ہے آپ کا اسلامی جمہوریہ پاکستان؟

تو شکر ہیں ہم یہاں نہیں رہتے۔ یہ سنکر ہمارا دل کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ہم جیتے جی زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ پاکستانی بے حس قوم سوچ بھی نہیں سکتی۔

مائیں فیشن اور موج مستی میں لتھڑی ہوئی ہیں اور باپ ریڑھی سے لیکر افسری تک زیادہ سے زیادہ حرام کمانے میں مصروف ہے۔ انکے بیٹے بیٹیاں پھر کچھ بھی کر لیں کوئی حیرت نہیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ سب اسی کمائی کے کمالات ہیں۔ گن پوائنٹ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ حرام کے نوالے حرامی اولاد کی صورت آپکے سامنے ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا حساب کتاب ہے جو ہو کر رہتا ہے۔

اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تہہ میں جا کر دیکھیں تو یہ بے بس جوانیاں کہیں عیاشی کے لیئے، تو کہیں ٹائم پاس کے لیئے، کہیں ایکسائٹمنت کے نام پر تو کہیں تجسس کے تحت ان تمام گناہوں کا بخوشی شکار ہونے جاتے ہیں۔ نہ ان میں کوئی لڑکا اغواء کرکے لیجایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی زبردستی لیجائی گئی ہے۔ اس تعلیمی ادارے کو ٹارگٹ کرنے سے باقی سبھی تعلیمی ادارے پارسا ثابت نہیں ہو جائینگںے۔ جب آپکی اولاد نے کاغذی ڈگریوں کی دوڑ میں 18 سال کی عمر تک بھی اپنا جیب خرچ تک اپنی محنت سے اور کسی ہنر سے کمانا نہیں سیکھا وہ 25، 30 سال کی عمر میں بھی باپ کی کمائی پر عیش کر رہی ہے۔

کپڑے اور موجیں انہیں مارک اور برانڈز والی چاہیئے تو انکے پاس اپنے جسم کو دکان بنانے کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ پھر جب ان دکانوں پر چھاپہ پڑتا ہے تو کئی دوپٹے اور پگڑیاں عہدیداران کے پیروں میں جس عزت کی دہائی دیتے ہوئے گرائے جاتے ہیں۔ وہ عزت تو کب سے قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اب اس بت کو چاہے جلا دیں، دفنا دیں یا سولی چڑھا دیں۔ اللہ کی رسی کھینچی جا چکی ہے۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin