Sar e Fehrist Qaumi Masla
سرفہرست قومی مسئلہ
پاکستان کے اصل مسائل میں سرفہرست انگریزی ہے جس کا جبری استعمال اس ملک میں علم کو عام نہیں ہونے دیتا بلکہ رٹے بازی کے سبب علم سے بیزاری کا سبب ہے۔ اردو کا نفاذ وہ بھی غالب کے زمانے کی اردو نہیں بلکہ آج کی رواں اور مروجہ زبان کو رائج کیجیئے۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو آج بھی اپنی سو دو سو سال پرانی لغت کیساتھ رائج ہے۔ اس لیئے اردو کے نفاذ کے لیئے کوشش کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خصوصاً اور عام لوگوں کو عموما مشکل الفاظ کے جھنجھٹ میں ڈال کر خود اس زبان کے نفاذ کے راستے میں کھڈے کھود رہے ہیں۔
جس انسان کے منہ کا دہانہ اٹھارہ سال کی عمر تک جن الفاظ کو ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا اس کے لیئے بھاری بھرکم الفاظ کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہر زبان ترقی کا سفر طے کرتی ہے۔ اردو زبان کا دامن بہت وسیع رہا ہے یہ ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر باآسانی جذب کر لیتی ہے۔ اس لیئے آج لاؤڈ سپیکر کو الہ مکبر الصوت نہ بھی کہیں تو اس سے اردو زبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا اس بات پر ضد کرنے کے بجائے اردو زبان بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو آسانی دینے پر بات کیجیئے۔ یا پھر آوز بڑھاؤ اسکا اور آسان ترجمہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں اردوئے معلی کے زمانے کے مشکل اردو اور متروک الفاظ نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور ہونا پڑیگا۔ جبکہ دنیا بھر میں زبان اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے۔ آج جو اردو بول چال جو عام طور پر بولی سمجھی جاتی ہے۔ لہذا جدید اردو زبان کے نفاذ پر کام کیا جائے۔ آج ہم جگ، گلاس، پلیٹ کے الفاظ کو اردو زبان میں قبول کر چکے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ کسی کو پرانی زبان پڑھنی ہے تو اسے اپنے شوق سے بطور مضمون پڑھ سکتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان میں پڑھتے اور بولتے ہیں۔۔ وہ انکی اپنی زبان آج کی جدید زبان ہوتی ہے۔ صدیوں پرانے الفاظ زبردستی سے بول چال میں شامل نہیں کیئے جاتے۔ متروک الفاظ کا ذخیرہ ہر زبان میں ہوتا ہے۔ اسے زبان کی بے عزتی نہیں سمجھنا چاہئے۔ آسان اردو زبان میں سرکاری کاغذات کی تیاری احکامات عدالتی فیصلے اسناد ہونگے تو عام اور کم پڑھے لکھے آدمی کو بھی دھوکا دینا آسان نہیں ہوگا۔ وہ ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے اور انگریزی زبان میں دی گئی چکر بازیوں سے بچ سکیں گے۔ زبان کسی بھی قوم کی سوچ ہوتی ہے اس کی تہذیب ہوتی ہے اس کا طرز زندگی ہوتی ہے اس کی مکمل شناخت ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں عدالتی کاروائی کی براہ راست نشریات نے وکلاء کی قابلیت اور علمیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا۔ کہ کیسے یہ انگریزی کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے سائلیں کو بلا وجہ سالہا سال تک عدالتوں میں رولتے ہیں۔ بیگناہوں کو اپنی نااہلیوں کے سبب جیل کی کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرںے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ یہی کیسز کسی اہل وکیل کے ہاتھ میں ہو تو تو وہ ان بیگناہوں کو چار چھ پیشیوں میں ہی آزاد کروا چکا ہوتا۔ جبکہ انگریزی کا پردہ سائلین کی آنکھوں پر ڈال کر یہ وکلاء معصوم لوگوں کواپنا بکرا سمجھ کر روز کاٹتے اور روز بیچتے ہیں۔
یہاں تک کہ دستاویزات میں ایسی ایسی چالبازی کے نکات مکاری کیساتھ شامل کیئے جاتے ہیں کہ عام ان پڑھ تو چھوڑیئے، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی شاید ہی کسی نے انکے وہ پلندے پورے پڑھے ہونگے، سمجھنے کی تو بات ہی جانے دیں۔ سائل سو فیصد اپنے وکیل پر اعتماد کے سہارے عدالت میں قانون کا سہارا لیتا ہے اور وکیل اکثر نہ صرف اپنے سائل سے منہ مانگی رقمیں بٹورتا رہتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے مخالف پارٹی کو اس مجبور اور بے خبر سائل کا کیس بیچ دیتا ہے۔
وہ سائل جو اپنے حق کی فتح کے لیئے انتظار میں ایک ایک دن کرکے اپنی زندگی کے قیمتی سال گنوا رہا ہوتا ہے، اپنی صحت اپنا سکون، اپنا پیسہ گنوا رہا ہوتا ہے، وہیں اسکا وکیل دھڑلے سے اپنا بینک بیلنس، اپنی توند، اپنے کوٹھی کا سائز، اپنی زندگی کی رنگینیاں بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اسے حلال سے غرض نہیں مال سے غرض ہے۔ غور کیجیئے تو اس ساری واردات میں جس چیز کو ان واردتئے وکلاء نے استعمال کیا وہ کیا تھی؟ وہ تھی زبان۔ ایک بیرونی زبان انگریزی میں اپنے لوگوں کی زندگیوں کو کبھی تل تل سلگایا جا رہا ہے، کبھی دہکایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس صاحب، قاضی القضاء صاحب 76 سال سے ہماری قوم کو اس زبان کی انگیٹھی پر سلگانے والوں کو قرار واقعی سزا دیجیئے اور اس قوم کی اپنی قومی زبان کو اس کا درجہ اور حق دلوا کر اس زبان کے دھوکا جال سے ہمیں آزاد کروا دیجیئے، تو یہ قوم تاقیامت آپکی احسان مند رہے گی۔ ہر صوبے میں اس کے سائل کی مرضی کے مطابق اسے اپنی صوبائی زبان میں یا قومی زبان میں اپنے وکیل کو بات کرنے اور دستاویزات بنا کر دینے کا بھی پابند کیجیئے۔ تاکہ لوگوں تک انصاف بھی پہنچے اور پوری بات بھی پہنچے۔ اس زبان میں جو انکی ماں بولتی ہے، جو ان کا باپ بولتا ہے۔ جو ان کا استاد بولتا ہے۔