Bohat Door Na Nikalna, Shirkistan?
بہت دور نہ نکلنا، شرکستان؟
پاکستان بھر میں بے دینی اپنے عروج پر ہے۔ شرک، جادو ٹونہ بے راہ روی عام ہے۔ دین کی اور حق کہ بات کرنا واقعی ہاتھ پر جلتا ہوا کوئلہ لیکر چلنے کے مترادف ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ اس حکومت کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے جو ریاست مدینہ کا لولی پاپ دیکر بے عمل اور بے کردار جوانیوں کو اندھے کنویں میں جھونکنے کا ایجنڈا بڑے زور و شور کیساتھ پورا کر رہے ہیں۔ یقیناََ دجالی آقا خوش ہوا۔
پہلے پورے تزک و احتشام کیساتھ ویلنٹائن ڈے کو اس ملک میں گھسایا گیا۔ ہر لڑکی کی عزت چوراہے پر رکھے گلاب کے گلدستوں میں باندھ دی گئی ہے جسے ہر صورت کل کوڑے دان میں پہنچنا ہی ہے۔ ہر لونڈا دوسرے کی بہن، بیٹی کو تاڑنے نکلتا ہے اور اس کی اپنی بہن کسی اور کے لیئے نوالہ تر بننے کی تیاری میں ہوتی ہے کیونکہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں اسے آپ کے گھر بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی اب یہ آپ خود جانتے ہیں یا آپکا خدا کہ آپ کیا اچھا کرنے کا ارادہ لیکر نکلے ہیں یا کیا برا کرنا چاہ رہے ہیں۔
کبھی چوکوں میں مسلمانوں کی عزتوں سے کھیلنے والوں کے بت آویزاں کیئے جاتے ہیں تو کبھی غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے انکے بتوں کے چڑھاوے بڑے مزے لیکر تناول فرمائے جاتے ہیں بلکہ آ ج کی اس خوار نسل یا پوری قوم کو یہ تک پڑھنے اور جاننے کی توفیق نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی نام کی کوئی بھی چیز کھانا حرام ہے۔ لیکن ہمیں اس سے کیا؟ کہیں رواداری کے نام پر، کہیں فیشن کے نام پر، کہیں بین الاقوامیت کے نام پر جس دین کی پہچان ہمارے نام سے جھلکتی ہے ہم اسی کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔
اور یہی وہ خسارا ہے کہ جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا کہ ہم اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے ہم غیر مسلموں کیساتھ انکی خوشیوں میں شریک نہ ہوں یا انہیں اس پر نیک خواہشات نہ دیں۔ مسئلہ یہ ہے اس سب میں ہمارے اپنے مذہب کو مذاق نہ بنا لیا جائے۔ ہر مذہب کا اپنا اپنا دائرہ کار، طرز زندگی اور قاعدے اور ضابطے ہوتے ہیں۔
بالکل ویسے ہی جیسے گاڑی چلانے کے لیئے آپکو گاڑی چلانے کی تربیت اور گاڑی ہی چلانے کا لائسنس لینا ہو گا اس کے لیے آپ موٹر سائیکل یا جہاز چلانے کا لائسنس پیش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ اجازت نامے گاڑی چلانے کے قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کرتے۔ سو اپنے مذہب کو ماننے کا عملی اظہار اس کے اصولوں کی پاسداری کیساتھ ہوتا ہے۔ زبانی کلامی باتوں سے آپ نہ تیتر رہتے ہیں نہ بٹیر۔
پھر "رے" پارٹیوں کو اپر کلاس سے رائج کیا جانے لگا جہاں منشیات کا ہر برانڈ اور بے راہ روی کا ہر طریقہ پوری مادر پدر آزادی کیساتھ پروموٹ کیا گیا۔ پھر نور مقدم اور سارہ جیسی لڑکیوں کے انجام رلانے کو مثال بن جاتی ہیں۔ ابھی ایسے کتنے ہی عزتوں کے جنازے ہونگے جو ان رئیس زادوں اور حرام خوروں کے فارم ہاوسز سے ڈائیریکٹ بنا کفن کے بنا نماز جنازہ کے ان کے باغات کی مٹی کے نیچے بچھائے گئے ہونگے۔
جن کے والدین آج بھی سوچتے ہونگے کہ انکی بیٹی جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو اس چنگل میں کبھی ماڈل بننے کے لیئے یا باس کو خوش کرنے کے لیئے یا ملازمت کے جھانسے میں یا پھر تگڑی رقم لیکر اپنے شوق پورے کرنے کے لیئے بدن تھرکانے کو پہنچی ہونگی۔ لیکن یہ بھول کر کہ اس شیطانی راستے پر آنے کی جانب تو دروازہ کھلتا ہے لیکن یہاں سے واپسی پر دروازہ کبھی نہیں کھلتا۔
ایسے میں تازہ مثال تعلیمی اداروں سے لیکر مخصوص طبقے کی سرپرستی میں اب ہیلوون کا دن منانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اب ہیلوون کا وہ دن جسے مردوں اور جہنم کیساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ اسے ڈارامہ ٹائز اور گلیمرائز کر کے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جہنم تو ایک سیر گاہ ہے اس کا کیسا خوف۔ یہاں تو ہم مٹر گشتی کرنے جائیں گے۔ کیا یہ وہی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے تھے کہ آخری زمانے کی ساری مخلوق پیدا ہی جہنم کا ایندھن بنانے کے لیئے ہو گی؟ کیونکہ انکے لیئے جہنم عبرت کا مقام نہیں بلکہ ایک تفریح گاہ سمجھی جائے گی۔
ایسی مشرکانہ رسموں کو ہمارے ملک میں ایک نام نہاد ہی سہی اسلامی معاشرے میں رائج کرنے کی کوششوں کو کیا سجھا جانا چاہیئے؟ حکومتیں کہاں سوئی ہوئی ہیں علماء جو ملک سے باہر یورپ میں جون جولائی میں ٹھنڈا کر کے اسلام پھیلانے کو مٹر گشت کرتے ہیں یہ ان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی سچی تصویر پوری ایمانداری کیساتھ پیش کریں۔ کون دیگا اس قوم کی بے راہ روی کا جواب؟