Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mumtaz Malik/
  4. Blacklist Qanoon Wahid Ilaj

Blacklist Qanoon Wahid Ilaj

بلیک لسٹ قانون واحد علاج

آج جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے، فتنے نے اپنے پنجے کہاں کہاں گاڑے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ہی رات میں یا چند روز میں برپا نہیں ہوا۔ یہ کہانی پچاس سال پر محیط ہے جبکہ اس خطرے کی بو کب سے محسوس ہو رہی تھی۔

میں گزشتہ دس سال سے یہی سب کچھ دکھا رہی ہوں اپنی تحریروں میں، بیانوں میں، جس کے بدلے مجھے کیسے کیسے کردار کشی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، اس دہشت گرد جماعت کے کارندوں سے، انکی غلیظ اور لمبی زبانیں گٹر سے زیادہ ناپاک ہیں تو انکی سوچیں ہر فکر سے دور۔ بلکہ سوچ کا انکے پاس سے گزر تک نہیں ہوا۔ انکے پاس کسی کے ہر سوال کا جواب یہ ہے کہ اپنے منہ کا گٹر کھول دو، اگلا جواب کے بجائے اس کی بو سے ہی میلوں دور بھاگ جائے۔

ایک بات اور لکھ کر رکھ لیجیئے۔ فتنہ خان کی ڈوری جمائما (پاکستان کی بدترین دشمن) کہلاتی ہے اور جمائما اس رائیل کی ہیروئن ہے پاکستان تباہی کے منصوبے میں۔ یہ فتنہ خان بطور عیاش مرغا 70ء کے عشرے میں ہی اپنے پہلے برطانوی دورے میں اگلوں کی نگاہوں نے چن لیا تھا جو اپنی عیاشی کے لیئے کسی بھی حد تک گر سکتا تھا۔ سو کام اسی وقت شروع کر دیا گیا ہے، جس کا عروج آج ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کا انجام خدانخواستہ 2030ء سے پہلے پہلے پاکستان کا نام نقشے سے مٹانا ہے۔

جو گندی نسل وہ ہمارے تعلیمی نصاب، مادر پدر آوارہ لوگوں کی تقرریاں بطور استاد، سکولز بشکل کاروبار عام کروا چکے ہیں اور والدین آنکھ کے اندھوں کی طرح بچے انگلش میڈیم میں ٹھونستے رہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ وہاں پڑھایا کیا جاتا ہے؟ اب نتیجہ نکل آیا ہے کہ نہ دین نہ ایمان، نہ کردار نہ تہذیب، نہ شرم نہ حیا، نہ علم نہ عمل، نہ جغرافیہ نہ سائنس، تیار ہوئے یہ زونبیز۔ یہ زونبیز تیار ہو کر اپنے ہی گھروں میں ٹائم بم بن چکے ہیں۔

اب جہاد اپنے ہی ملک میں ان زونبیز کے خلاف کرنا لازم ہے، اگر ہمیں یہ ملک بچانا ہے۔ ورنہ مجھے تو کچھ اچھا دیکھنے کی امید ہی رہیگی۔ اس ملک کو بچانے کے لیے مذہبی جماعتوں تحریک لبیک، جماعت اسلامی، اور مولانا فضل الرحمٰن کو ہی آگے لانا پڑیگا۔ اس ملک کو برگروں سے، اس فتنے سے پاک کرنا، کرونا سے بچاؤ جیسا ہی ہے۔ بہت سوں کو درگور ہونا پڑیگا۔ وقت جب حساب لینے پر آتا ہے تو پھر چھوٹی چھوٹی لغزشوں کا بھی بے رحم حساب کتاب کرتا ہے۔

ملک کے اندر ہر جماعت جب پرتشدد کاروائیوں میں ملوث پائی جائے، اسے کلعدم قرار دیا جائے، موجودہ واقعات میں ہر آدمی کو بلا لحاظ و تفریق مرد، عورت، جوان، بڈھا، اسے گھسیٹ کر قانون کے کٹہرے تک لایا جائے فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان پر مقدمات آڈیو وڈیو تصویری شواہد کیساتھ پیش کیئے جائیں۔ ہر مجرم کو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت سنائی جائے۔ اس کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحق سرکار ملکی قرضوں اور املاک کی مد میں ضبط کی جائے۔

جس کی جائیداد نہیں اس کے گردے، جگر، آنکھیں جو کچھ عطیہ ہو سکتا ہے اسے سزائے موت دیکر عطیہ کر دی جائیں۔ چاہے بیچ کر پیسے خزانے میں جمع کرائے جائیں۔ سزاؤں کو بلا تفریق امیر غریب اونچی نیچی کلاس اور ذات پات کے عبرتناک اور یقینی بنائیے کیونکہ ملک ٹھٹھوں اور قانون کیساتھ کھلواڑ کے ساتھ نہیں چلا کرتے۔ نہ ہی ملک بار بار آزاد ہوا کرتے ہیں۔ اس کی آزادی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ سزاؤں کا بند باندھیئے اس مادر پدر آزادی پر۔

ملک سے باہر پاکستان کی عزت و وقار کی دھجیاں اڑانے والے جمائما کے کرائے کے۔۔ کے لیئے بڑا قدم اٹھانے کا وقت آ چکا ہے۔ فوری قانون بنائیے اور نافذ کیجیئے۔ کسی بھی جماعت کی حکومت اس قانون کو تبدیل نہ کر سکے۔ کہ وہ تارکین وطن جو کسی بھی ملک میں پاکستان کے وقار کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی میں ملوث پایا گیا، گئی۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف کسی قسم کے جلسے جلوسوں نعرہ بازیوں میں شامل ہوئے، یا سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے پاکستان یا اسکے اداروں کے خلاف بکواس کی گئی یا کسی بھی پاکستانی چاہے وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، میڈیا سے متعلق ہو، اس پر آوازے کسے گئے یا اسے ہراساں کیا گیا۔

ایسی ہر صورت میں وہاں کے سفارت خانے کو تین روز کے اندر اندر اس شخص کو پاکستان کے پاسپورٹ اور نادرا کارڈ سے ہمیشہ کے لئے فارغ کر دیا جائے۔ اسے پاکستان کے قانون میں بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ اب وہ ساری زندگی پاکستان نہیں جاسکتا، نہ زندہ نہ مردہ۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو کچھ کہیں گے کہ یہ تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ ان سب کو ایک ہی جواب دیجیئے کہ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں اور جن کو سزا ملی ہے انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔

انکے ہمدرد اپنے ممالک میں اس کی کرتوتوں کو فالو کر لیا کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور رہی بات کسی اور ملک میں ایسا نہ ہونا تو انہیں یاد دلائیں کہ دوسرے ممالک میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے ہاں بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے ہم اپنے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں گے۔ کسی کے پیٹ کا مروڑ پاکستانی دور کرنے والے نہیں ہیں۔

خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

Check Also

Bare Pani Phir Arahe Hain

By Zafar Iqbal Wattoo