Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mumtaz Malik/
  4. Aurat Ke Khilaf Juraim

Aurat Ke Khilaf Juraim

عورت کے خلاف جرائم

آئے روز ہمارے اردگرد کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے، کہیں گولی مار کر اسے بدکردار ثابت کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب گردی ہے اور کہیں اس کا اغوا اور آبرو ریزی، کہیں کاری تو کہیں (توہین قرآن کی سب سے بڑی اعلانیہ و فخریہ رسم) قرآن سے شادی، آگ لگا کر مار ڈالنا، کی خبریں اس تواتر کیساتھ سامنے آتی ہیں کہ سننے والے بھی اسے سن سن کر بے حسی کی اس منزل تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب یہ جرائم زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہ تو جرائم لگتے ہیں اور نہ ہی قابل سزا۔

اور تو اور ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور بااثر اور بارسوخ کہلانے والے افراد بھی زیادہ تر ان جرائم میں ملوث ہیں۔ اکثر ایسے واقعات میں ان کی رپورٹنگ اور ویڈیوز کے نیچے دی گئی آراء اور کومنٹس پڑھیں تو آپ پر یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عورت ہی بری تھی، کیا ہوا اگر اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف اسکا باپ کروانے جا رہا تھا، پھر کیا ہوا اگر اسکا بھائی اس کی جائیداد پر حق جما رہا تھا اسے برداشت کرنا اور اسے معاف کر دینا چاہیئے تھا۔ یہ کیوں اپنے حق کا شور مچاتے کھڑی ہوگئی، بھائی کی غیرت کو کیوں للکارا، پھر کیا ہوا کہ اس کا شوہر اسے پیٹتا تھا یہ کیوں کسی کو بتانے گئی، پھر کیا ہوا کہ اس کے بیٹے نے اسے مار ڈالا اسے اس بیٹے کی غیرت اور مرضی کے مطابق چلنا چاہیئے تھا۔

ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا بس مرد ہی غیرتمند ہے، باکردار ہے اور عقلمند ہے۔ جبکہ عورت؟ اور اسی بے غیرت، بدکردار اور بے عقل عورت سے وہ خود بھی پیدا ہوا ہے اور اپنے جیسے پیدا بھی کر رہا ہے۔۔

ہمارے معاشرے کی عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ان مردوں سے ہوتا ہے، جن کے رشتوں سے انہوں نے انکار کیا ہو یا جن سے علیحدگی خلع یا طلاق کی شکل میں اختیار کی ہو۔

یہ عورتیں ساری عمر ان ناکام مردوں کے نشانے پر رہتی ہیں۔ ان کا خیال آتے ہی انہیں اپنی نام نہاد مردانگی پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جب تک وہ ان کے رشتے میں رہیں انہوں نے انہیں اذیتناک زندگی دی اور جب وہ ان سے دامن چھڑا کر انہیں لات مار کر انکی زندگی سے نکل گئیں تو انکے لیئے ایک چیلنج بن گئیں۔ کہ اس عورت کو مرتے دم تک چین سے نہیں رہنے دونگا۔

یہ انکی کوئی محبت نہیں ہوتی کہ وہ انکے لیئے مرے جا رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ انکی وہ شرمناک سچائی ہوتی ہے جس کا کھلنا انہیں برداشت نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو اچھا انسان ہے اور نہ ہی اچھا شوہر۔ یہ داغ دو طریقے سے دھویا جا سکتا ہے یا تو اس خاتون کا صفایا کر دو جو کہ انکی اکثریت کرنے کے لیئے تمام عمر کوشاں رہتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ مثبت انداز فکر ہے جس کے تحت نہ صرف وہ خود زندگی کے اس موڑ سے آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ کسی اور کو اپنی شریک حیات بنا کر ایسی مثالی زندگی گزارتے ہیں کہ وہ چھوڑ جانے والی کبھی سچی بھی تھی تو ساری دنیا کے سامنے جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طرز عمل اپنانے والے مردوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول اور غلط تربیت ہے جس کے تحت مرد کے احساسات کو "مرد کو درد نہیں ہوتا، اور مرد روتا نہیں ہے، قسم کے لایعنی تصورات کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے لیئے اس درد کو بیان کرنے کا آسان طریقہ ایک ہی مل پاتا ہے وہ ہے کسی عورت کو اس کی زندگی میں ایک "پنچنگ بیگ" کے طور پر شامل کر دیا جائے۔ وہ چیخ جو وہ کہیں نہیں مار سکتا اس عورت کو مغلظات کے طور پر اس پر دے مارے گا۔ اور وہ مکا جو وہ اپنے کسی دشمن پر، رشتے پر نہیں برسا پاتا وہ پنچنگ بیگ بنام بیوی پر آ کر برساتا ہے۔ اور اگر یہی مکے برسائے جانیوالا تھیلہ (پنچنگ بیگ) ہی آگے سے اپنے زندہ ہونے اور درد ہونے کی صدا بلند کرنے لگے تو وہ اسے کیونکر برداشت کر پائے گا۔

پڑھائی میں ہی نہیں، سمجھ بوجھ میں بھی مردوں کی اکثریت اپنی بیوی سے کم ہوتی ہے، جس کے سبب وہ اسے اپنی غیرت پر تازیانہ شمار کرتا ہے۔ بدلے میں وہ اپنی قابلیت بڑہانے کے بجائے اپنی طاقت کو اپنی بیوی کی قابلیت تباہ کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے۔ اسی لیئے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو آپ جان جائیں گے کہ اپنی گھر کی، اپنے خاندان کی سب سے لائق فائق، سمجھدار، ذہین ترین لڑکی شادی کے رشتے میں بندھتے ہی کیوں اور کیسے چند برسوں میں ہی نکمی، بیوقوف، پاگل اور ذہنی مریضہ قرار دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسی تھی نہیں بلکہ بنا دی جاتی ہے۔ اور اکثر اسی "ذہنی مریضہ" بنائی گئی لڑکی سے وہ خودساختہ قابل ترین مرد اپنے جیسے قابل ترین بچے پیدا کرنے کی مہم پر بھی روانہ رہتا ہے۔ گویا چنے کے جھاڑ سے آم اگانا چاہتا ہے۔

عورت کو مرد کے اندر کے اس شیطان سے بچانا ہی معاشرے کو ایک صحت مند ماحول اور نسل دے سکتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنا یا ہوتا دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور پھر اپنی بیٹیوں کے لیئے نیک نصیب کی دعا کرنا خدا کو دھوکا دینا ہے یا خود اپنے آپ کو؟

Check Also

1988 Ke Baad Pakistani Siasat Mein Aik Naya Kaam

By Saqib Malik