Zindagi Khoobsurat Hai
زندگی خوبصورت ہے
کبھی خودکشی سے بچ جانے والوں کا سروے پڑھیے، یا رپورٹ کا مطالعہ کیجیے تو پتا چلتا ہے کہ جب وہ اپنی جان کے درپے ہوتے ہیں اور جان کنی کے عالم میں بچ جاتے ہیں یا موت کو انتہائی قریب سے دیکھ لیتے ہیں تو اس وقت ان کے ذہن میں یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ کاش میں بچ جاؤں۔
کسی کی پنکھے سے لٹکی لاش ہے، تیز دھارے سے کسی نے شہ رگ کاٹ دی یا زہریلی گولیاں کھا لی ہوں، جو آخری لمحات ہوتے ہیں اس میں خودکشی کرنے والے کے جذبات یکسر بدل جاتے ہیں۔ کوئی سن لے تو وہ التجا کرنا چاہتا ہے کہ کسی طرح میری جان بچا لی جائے اور اسے اپنی غلطی کا فوراََ احساس ہو جاتا ہے جو بچ جاتے ہیں وہ خوش قسمت ہوتے ہیں، جو اپنی جان لے لیتے ہیں ان کے حالات کی کسی کو کیا خبر؟
فیصل آباد میں خودکشی کا ایک دلخراش واقعہ نظر سے گزرا جس میں ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کو تیز دھار آلے سے ذبح کرنے کے بعد خود بھی اپنی جان لے لی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، آجکل خودکشی کے واقعات اتنے عام ہوتے جا رہے ہیں کہ مجھے ڈر ہے آنے والے دنوں میں یہ ایک معمول نہ بن جائے اور ہمارے لئے خودکشی کا واقعہ محض ایک خبر یا عام سی بات نہ بن جائے۔
غربت میں خودکشی کے کئی عوامل کار فرما ہوں گے لیکن ایک وجہ جو میرے نزدیک بہت اہم ہے وہ ہمارا قناعت پسند اور راضی بہ رضا نہ ہونا ہے۔ جب ہم اپنے پروردگار کی عطا کی ہوئی نعمتوں اور مشکلات پر صبر کرنا اور قناعت کرنا نہیں سیکھ جاتے تو ہمارے ذہن میں یا تو بغاوت پیدا ہوتی ہے یا پھر شدید قسم کی مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ بغاوت میں ہم سامنے والے کو مار کر راہ فرار حاصل کر لیتے ہیں اور مایوسی میں ہم اپنی جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔
بہرحال یہ دونوں صورتیں کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہیں اور یہ اب معاشرے کے لئے خطرناک ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے۔ میرے دل میں خودکشی کرنے والے کے لئے کبھی بھی نرم جذبات نہیں رہے کیونکہ میں اس کو دنیا کا بزدل ترین شخص تصور کرتا ہوں جس کو حالات سے مقابلہ کرنا نہ آیا، جس کو واقعات کو سہنا نہیں آیا، جس کو زندگی کی جنگ لڑنا نہیں آیا۔ وہ اللہ کی دی ہوئی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیے زندگی میں مشکل مراحل بھی آتے ہیں، زندگی میں مصیبتیں بھی آتی ہیں، دل بھی ٹوٹتا ہے، ارادے بھی ٹوٹتے ہیں، لیکن جن کے حوصلے بلند رہتے ہیں وہ ہر جنگ جیت لیتے ہیں، کیونکہ جب تک سانس ہے تب تک برے حالات بہتر ہونے کے چانسز بڑھتے جاتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ سو حالات جیسے بھی ہوں جتنے بھی مایوس کن اور بدترین ہوں اپنے آپ کو تھپکی دینے سے مت گریز کریں۔
حکومت وقت کو الزام دینے سے، رشتہ داروں کو دوش دینے اور گھر والوں پر چڑھائی کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کریں۔ کون سا انسان ہے جس کی زندگی میں مشکلات نہیں، تنگی نہیں، تلخی نہیں سانحات نہیں؟ لیکن وہی لوگ مقدر کے سکندر بنتے ہیں جن کو ان تلخیوں سے نکلنا آتا ہے۔
انسان کو اپنی صلاحیتوں پر اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے وہ تو مچھلی کے پیٹ میں اپنے بندے کو چالیس دن تک زندہ رکھ سکتا ہے، اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو کس مشکل کا حل نہیں اس کے پاس؟ راضی بہ رضا ہونا سیکھ جائیے یا پھر مقدر سے لڑنا سیکھ لیں۔ خودکشی تو بزدلوں کا کام ہے اور بزدل ناشکرا ہوتا ہے۔