Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mujeeb Ur Rehman/
  4. Tawakal

Tawakal

توکل

زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ انسان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں۔

کہیں آس کی ڈوری ٹوٹتے ٹوٹتے رہ جاتی ہے، یقین کا سرا ہاتھ سے پھسلنے لگتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ ہم اسی بند گلی میں کھڑے ہیں، جہاں گزرنے کا راستہ ہے، نہ نکلنے کا اور نہ واپس مڑنے کا۔۔ پھر مایوسی، پریشانی اور اضطراب کے مہیب سائے آس پاس منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے سب کچھ ختم ہوگیا اصل میں سب کچھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ سب کچھ شروع ہونے کا وقت ہوتا ہے۔

ثابت قدمی کے شروع ہونے کا وقت، گر کر دوبارہ اٹھنے کا وقت، ایک راستہ مسدود ہو متبادل راستہ تلاش کرنے کے وقت کا آغاز ہوتا ہے۔

جب ہم اس حقیقت کو مان لیتے ہیں کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے تو ہمیں امتحان سے گزرنا تو ہوگا۔ فرق صرف زیست کے سوالنامے کا ہوتا ہے، بعض کے پرچے میں سخت سوال آجاتے ہیں اور بعض کے سہل۔۔ فرق صرف تیاری کا ہوتا ہے۔ جس چیلنج کے لیے ہم خود کو تیار نہیں کر پاتے اس کا جب سامنا ہوتا ہے تو ہمارے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔

بظاہر حالات ٹھیک لگتے ہیں۔ لیکن ذہن کے کسی گوشے میں ایک خوف، ڈر، واہمہ اور خدشہ موجود رہتا ہے۔

کوئی بھی نیا پروجیکٹ شروع کرنا ہو کوئی مسئلہ سلجھانا ہو، یا کسی کو آزمانا ہو ہمارے ذہن میں کئی خدشات پہلے سے ہی جگہ بنا لیتے ہیں۔ ہم مثبت پہلو دیکھنے کی بجائے منفی پہلو پر نظریں گاڑ لیتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ یوں ہوگیا تو کیا ہوگا؟ اگر توں ہوا تو کیا ہوگا؟

جبکہ ہمارا کام صرف خنجر تیز رکھنا ہے۔ گھوڑے باندھنا ہے۔ اپنی تیاری کرکے رکھنا ہے۔ پھر سارے نتائج اللہ تعالی کے ہاتھ میں دے دیئے جاتے ہیں۔ جلد یا بدیر وہ شجر کو ثمربار کر دیتا ہے۔

اگر آپ کام کرنے سے پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں تو لکھ لیجئے اس میں 90 فیصد آپ کو مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ہم جیسے گمان کر لیتے ہیں، ہمیں اس کے مطابق صلہ ملتا ہے۔

جب سکہ ہوا میں اچھالتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ کونسا رخ سامنے آئے گا سکہ ہوا میں معلق ہونے سے زمین پر آنے تک کا جو ایک لمحہ ہوتا ہے وہ اضطراب کا لمحہ ہوتا ہے۔۔ یہ زندگی بھی ایک سکہ ہے۔ جو ہمیں ہر روز اچھالنا پڑھتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا رخ ہماری سوچ کا رخ بدل دے گا۔

اللہ پر یقین کی طاقت کا اندازہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں اللہ پر مکمل اعتماد کرکے دیکھا ہو، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا تو صرف زبانی کلامی نہیں ہونا چاہیے۔

وہ ہمیں ہمارے گمان کے مطابق اور کبھی گمان سے بڑھ کر دیتا ہے تو کیوں نا اچھا گمان رکھیں حاصل کلام یہ ہے کہ زندگی میں کئی نشیب و فراز اور مدوجزر آتے ہیں۔ لیکن جب وہ کن فرما دیتا ہے تو بازی پلٹ جاتی ہے۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اکثر پریشانیاں خود ساختہ ہوتی ہیں ہم زہہن کے کونوں کھدروں سے ایسی باتیں گھسیٹ کر، کھینچ کر اور کرید کر لاتے ہیں۔ جو ہماری ہنستی مسکراتی زندگی میں ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔

کچھ باتیں فراموش کرکے بھی دیکھیے۔

وقت کے گہرے کچوکے، کسی کی نا انصافی، کسی کی زیادتی اور سب کچھ رب کے سامنے کے حضور پیش کرکے اپنے ذہن سے بوجھ اتار دیجیے۔ کیوں نہ اپنا خون جلانے کی بجائے کوئی ایسا دیا جلائیں، جس سے سب روشنی پا سکیں۔

Check Also

Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

By Mohsin Khalid Mohsin