Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mujeeb Ur Rehman/
  4. Sehat Insaf Card Aur Carpenter Rafiq

Sehat Insaf Card Aur Carpenter Rafiq

صحت انصاف کارڈ اور کارپینٹر رفیق

رفیق مغل 15 سالوں سے میرا شٹرنگ کارپنٹر تھا، اس کا تعلق ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے کسی دور افتادہ پسماندہ گاوں سے ہے، اس عرصے میں اس نے زیادہ تر کام میری کمپنی میں ہی کیا ہے۔ گاہے بگاہے وہ کسی اور جگہ پہ بھی کام کرتا رہا، وہ بھی اس صورت میں جب میرے ہاں نیا کام لیٹ ہوتا یا اسے کہیں زیادہ بہتر کام مل جاتا، رفیق ان پڑھ اور مزدور ہو کے بھی اپنے قول و فعل کا پکا ہے۔

اپنی کہی گئی بات سے پیچھے نہیں ہوتا، جھوٹ بہانے بازی اور دھوکا دہی سے کام نہیں لیتا، کام میں نفاست اور ترتیب اس کے مزاج کا حصہ ہے، اسے اپنے شعبے کے جتنے بھی دیگر کاریگروں کا کہا جائے وہ لیل و لعت سے کام لیے بغیر بہترین لوگوں کا بندوبست کر لیتا ہے، کنسٹرکشن کے کام سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کے یہاں اسلام آباد، راولپنڈی میں زیادہ تر شٹرنگ کے کاریگر ہمارے ہزارہ ڈویزن بالخصوص ضلع مانسہرہ کے علاقے کاغان و بالاکوٹ سے ہی ہیں، جن کی اکثریت دھوکہ دہی، جھوٹ اور کام کے دوران ٹال مٹول سے ہی کام لیتی ہے۔

آئے روز ان کی فوتگیاں و شادیاں ختم نہیں ہوتیں پیسے انہیں ہمیشہ ایڈوانس ہی چاہیے ہوتے ہیں پھر ایڈوانس لینے کے بعد کسی اور کا کام پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن رفیق مغل ان ساری فضولیات سے پاک ہے۔ وہ کام کرکے پیسے لیتا رہا انتہائی مجبوری میں چھٹی کرتا رہا۔

اب کچھ عرصے سے وہ میرے ہاں کام نہیں کر رہا تھا، لیکن مہینوں بعد کال کر کے حال احوال پوچھ لیتا ہے، اسے بھی وٹس ایپ پہ میسج کرنا، صبح بخیر کہنا اور تصویریں بھیجنا آتی ہیں۔ میں اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے میسنجر انبکس اور وٹس ایپ میسج دیکھنے و بھیجنے میں خاصا سست واقع ہوا ہوں۔ اکثر دوست احباب، رشتہ دار اور دیگر شناسا لوگوں کو اس معاملے میں مجھ سے گلہ ہی رہتا ہے۔

البتہ فیملی، کلائینٹس اور کاروباری نوعیت کی ڈیلنگ والے لوگ میری پرائیریٹی پہ ہوتے ہیں، ہم ان سے پیسے لے کے ان کو بروقت رسپانس کے پابند ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یکے بعد دیگرے دو تین مرتبہ رفیق کے نمبر سے کال آتی رہی، میں نے اسے روٹین کی کال جانا اور یہ سوچ کے اگنور کیا کے کام سے فرصت پا کے شام میں اسے کال کرکے حال احوال پوچھ لوں گا، پھر کچھ دیر بعد ایک unknown نمبر سے کال آئی۔

جسے میں نے اٹینڈ کر لیا دوسری طرف کوئی خاتون سخت پریشانی میں بول رہی تھیں، اس نے اپنا تعارف رفیق کی بیوی کے طور پہ کرایا اور کہا رفیق کچھ عرصہ سے گاوں ہیں، سخت بیمار ہیں اور آج مانسہرہ میں ڈاکٹر نے بتایا ہے کے انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ ہم لوگ بہت غریب ہیں ہم مر جائیں گے پہلے ہی کام کاج نہیں ہے کھانے پینے کے پیسے نہیں ہیں اوپر سے یہ اتنی بڑی آزمائش۔

مجھے آپ کے بارے میں رفیق نے بتایا کے وہ غریبوں کا احساس کرنے والے نرم دل آدمی ہیں، وہ ضرور میرے لیے بھی کچھ کریں گے انہوں نے آپ کا نمبر دیا تب میں نے اس مشکل گھڑی میں آپ کو یاد کیا، پلیز آپ ہمارے لیے کچھ کریں یہاں دل کا علاج بہت مہنگا ہے، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، رفیق کے بغیر ہمارا اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں۔ مجھے یہ ساری کتھا سن کے سخت دکھ و افسوس ہوا اور ایک غریب خاندان۔

جو اس وقت شدید پریشانی و مشکل میں ہے، ان کی دکھ بھری زندگی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ میں نے ساری بات سننے کے بعد انہیں یقین دلایا کے اللہ تعالی مدد کرے گا، آپ لوگ حوصلہ رکھیں۔ رفیق ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن ان کی ایک ہی پریشانی تھی کے اتنے مہنگے علاج کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں اور رفیق کی حالت ٹھیک نہیں سوچتے سوچتے یک دم میرے ذہن میں عمران خان کی صحت انصاف کارڈ سکیم کی بابت خیال آیا۔

جس سے ٹھیک ایک مہینہ پہلے دل کے عارضے میں مبتلاء میرے سگے ماموں مفت علاج کروا چکے ہیں، جبکہ ہزاروں دیگر مریض بھی روزانہ مستفید ہو رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا پیسوں کی فکر نہ کریں، بس آپ لوگ کل صبح اپنے آئی ڈی کارڈ لے کے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ جائیں پیسوں اور علاج کا بندوبست ہو جائے گا۔ میرے ان الفاظ کے بعد فون پہ ہی رفیق کی بیوی کی حیرانگی، خوشی اور دعائیں محسوس کرنے والی تھیں۔

دوسرے دن ٹھیک وقت مقررہ پر رفیق اس کا چھوٹا بھائی اور بیوی ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ میں نے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں رفیق کو چیک کروایا۔ ڈاکٹرز نے کچھ ٹیسٹ لکھے اور رپورٹ آنے کے بعد سٹینٹ Stent تجویز کیا پھر آئی ڈی کارڈ دیکھ کے حکومت خیبر پختونخواہ کے پینل پہ موجود ایک نجی ہسپتال ریفر کر دیا گیا دوسرے دن صبح رفیق کو سٹینٹ ڈال کے اگلے 24 گھنٹے کے لیے نگہداشت کے لیے ہسپتال ہی رکھا گیا۔

جہاں سے 3 ہفتے کے لیے ضروری دوائیں دے کے فارغ کر دیا گیا یوں یہ لاکھوں روپے کا علاج بغیر ایک روپیہ خرچ کیے محض ایک آئی ڈی کارڈ دکھانے پہ ہو گیا، یقین کیجیئے کسمپرسی کی حالت میں کسی بھی فرد یا خاندان کے لیے شاید ہی مفت علاج اور دواءوں سے بڑھ کے دنیا کی کوئی نعمت ہوتی ہو۔ میرا تعلق گاوں سے ہے، ایک بڑی آبادی سے جان پہچان اور رشتہ داری ہے۔

ہمیں ذاتی طور پہ متعدد بار اس بات کا احساس ہو چکا ہے، کے جب آپ کا کوئی بہت قریبی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو اور آپ علاج اور دوائی کے لیے ایک ایک پیسے اور ہسپتالوں کے دھکے کھاتے ہوں تو گھر والوں کے کیا حالات ہوتے ہیں۔ میرے والد ریٹائرڈ استاد اور علاقے میں صاحب جائیداد و معتبر آدمی تھے 1986 میں وہ کڈنی کے مرض میں مبتلاء تھے راولپنڈی ایم ایچ سے علاج ہو رہا تھا۔

ڈاکٹرز نے ڈائیلیسز تجویز کیے علاج پہ اتنا پیسہ خرچ ہو رہا تھا کے آخر میں خاندانی زمین کا کچھ حصہ فروخت کرنا پڑا میں اس وقت محض 14، 15 سال کا تھا، والد صاحب تو جانبر نہ ہو سکے، لیکن لواحقین کے لیے علاج کی پریشانیاں ایک الگ داستان ہیں۔

اللہ کے فضل سے رفیق اب مکمل صحت یاب ہے۔ اس کی کال آتی ہے، میرے لیے دعائیں کر رہا تھا، میں نے رفیق اور اس کے خاندان کی دعاءوں کا بہاو عمران خان کی طرف کروا دیا، جس کی سوچ اور عمل نے ہزاروں نہیں لاکھوں دکھی انسانوں کے لیے صحت و شفاء کے اسباب بنوائے ہیں۔

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi