Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mujeeb Ur Rehman/
  4. Muhabbat Ka Qarz

Muhabbat Ka Qarz

محبت کا قرض

گھر کے آنگن میں باپ جیسا گھنا اور سایہ دار درخت اور کوئی نہیں ہوتا۔ ماں کی گود میں تحفظ اور سر پہ باپ کا ہاتھ مشفق بادل جیسا ہوتا ہے۔ یوں تو والدین اور دنیا سے جانے والے اپنوں کی یادیں ہر لمحہ ساتھ رہتی ہیں، بظاہر یہ لوگ جسمانی طور پہ عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف لوٹ جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اپنی باتوں، اپنی یادوں، اپنی محبتوں اور اپنے پیار کی بدولت یہ ہمیشہ مہربان سایہ کی طرح ہمارے ساتھ ہی تو رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے توسط سے آپ مجھے تو جانتے ہوں گے لیکن آج آپ میرے توسط سے میرے شفیق والد سردار محمد یونس کے بارے میں کچھ جان پائیں گے جن کی وجہ سے ہی آج تک میں حقیقی دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا ہوں۔ میں چاہوں گا کہ آپ اس تحریر کو مکمل پڑھیں یہ تحریر شاید میری تمام تحاریر میں سے وہ واحد تحریر ہے جس کے ایک ایک لفظ میں وہ قرض اور محبت ہے جو میں اپنے باپ کو بدلے میں نہ لوٹا سکا۔

میں صرف 14، 15 سال کی عمر تک اپنے باپ کی شفقت، محبت اور سایہ دیکھ پایا ہوں، لیکن یہ 14، 15 سال چودہ، پندرہ صدیوں پر محیط ہیں۔ بظاہر تو یہ مختصر عرصہ ہے لیکن میری 50 سالہ زندگی پہ ان 15 سالوں کی رفاقت کے ہی نقش کندہ ہیں اس مختصر سے عرصے میں اپنے عظیم والد کے بارے میں جتنا جان پایا ہوں وہ شاید احاطہ تحریر میں نہ آ سکے۔ لیکن آج چونکہ عالمی سطح پر والد کی محبت اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے تو اپنے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان کی شخصیت سے آپ کو متعارف کروانا چاہتا ہوں۔

میرے والد اپنے دور کے پڑھے لکھے اور صاحب علم و صاحب فہم شخص تھے۔ پیشے کے اعتبار سے معلم تھے بلکہ ان کے والد یعنی میرے دادا بھی درس و تدریس سے ہی وابستہ تھے۔ جب سے ہی کتاب اور پڑھنے لکھنے کا شوق ہماری جبلت کا معتبر حوالہ رہا۔ والد مرحوم انسان دوست شخص تھے۔ وہ نا صرف اولاد کیلئے بلکہ اپنے پورے علاقے کے لیے سراپا مہربانی اور محبت تھے۔ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ والد محترم علاقے کے بہت متحرک سماجی رہنما بھی تھے۔

علاقے کے ترقیاتی کاموں سے لے کے لوگوں کے ذاتی مسائل کے حل تک وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کی بیٹھک ان کی مہمان نوازی، سماجی خدمات اور مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہتی تھی۔ زبان و بیان جیسی خدا داد صلاحیتوں اور گفتار و کردار کی اچھی ساکھ ہونے کی وجہ سے ان کی ہر محکمے میں بات سنی جاتی تھی۔ اپنے عہد کے ضلع بھر کے مشاہیر ایم این اے، ایم اپی اے اور وزیر و مشیر نہ صرف رفاع عامہ کی فلاح کے لیے ان کی بات سنتے تھے بلکہ اس پہ عمل بھی کرتے تھے۔

گاؤں میں واٹر سپلائی کا پہلا پروجیکٹ اور صحت عامہ کا بیسک ہیلتھ یونٹ ان کی ہی کاوشوں سے سردار گل زمان صاحب مرحوم جو اس وقت کے وزیر بلدیات تھے نے منظور کروائے تھے۔ ان کا مزاج دوستانہ، رکھ رکھاؤ والا، لوگوں کو عزت دینے اور اپنی عزت کروانے والا تھا جس وجہ سے وہ مختلف محکموں اور اداروں میں اپنا تعلق اور اثر رکھتے تھے۔

جبکہ محکمہ تعلیم تو ان کا اپنا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی وساطت سے بیسویں اساتذہ اور دیگر ملازمین کی ملازمتوں اور روزگار کا ذریعہ بنوایا، اسی طرح محکمہ صحت اور پبلک ہیلتھ میں بھی کئی افراد کے روزگار کا وسیلہ بنے۔ اولاد پر ان کی شفقت بے مثال تھی، چونکہ ان کی سماجی مصروفیات زیادہ رہتی تھیں جس کی وجہ سے گھر کے معاملات میں والدہ کا عمل دخل تھا، اولاد کے معاملے میں والدہ قدرے سخت تھیں لیکن والد صاحب کو ہمیشہ نرم دلی برتتے ہوئے دیکھا۔

نا صرف اپنے اہل و عیال میں بلکہ پورے خاندان میں ان کی صلہ رحمی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ بطور شوہر وہ ہمیشہ میری والدہ کے لیے بہترین ساتھی ثابت ہوئے۔ تمام تر خوبیوں کے ساتھ اگر کسی مرد میں خانگی اور خاص طور پر بیوی کے ساتھ معاملات درست نہ ہوں تو میں اسے مثالی انسان نہیں مان سکتا۔ کہ شفقت و محبت اور توجہ کی شروعات سب سے پہلے اپنے گھر سے ہوتی ہیں۔

میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں میرے والد کا کردار بہت کلیدی ہے، وہ ہر موضوع پر مجھ سے بات کرتے تھے۔ میرے اندر یہ جو کتابوں اور حالات حاضرہ سے با خبر رہنے کا شوق ابھی بھی زندہ ہے یہ والد کی وجہ سے ہی ہے۔ وہ خود پڑھے لکھے انسان تھے اور صاحب علم لوگوں سے حد درجہ محبت رکھتے تھے۔ یادوں کی ایک پٹاری ہے جس میں بچپن اور لڑکپن کی سینکڑوں باتیں ہیں لیکن تمام تر یادیں اور باتیں اس تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں بس دعا ہے خالق کائنات میرے والد کی قبر کو بقعہ نور بنا دے اور ان کو جنت کے سبزوں کا مکین بنائے۔

جب میں بطور والد اپنے بچوں اور بطور شوہر اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنا برتاؤ دیکھتا ہوں تو اپنے والد کی شخصیت میرے سامنے بطور رول ماڈل رہتی ہے۔ لیکن باوجود کوشش کے نہ تو باپ، نہ بطور شوہر، نہ ہی بطور انسان خود کو اپنے والد کے قریب پاتا ہوں۔ آج جب آپ سب اپنے والدین کے لیے دعا کریں تو میرے والدین، اس تصویر میں موجود میرے اقرباء سمیت سارے مرحومین کی مغفرت و بخشش کی دعا ضرور کیجیۓ گا۔

انہی کے دم سے بخت ہوتے ہیں

باپ گھروں کے درخت ہوتے ہیں

ایک نالائق بیٹا۔

Check Also

Shohrat Ki Bhook

By Aaghar Nadeem Sahar