Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujeeb Ur Rehman
  4. Joint Family System (2)

Joint Family System (2)

جوائنٹ فیملی سسٹم (2)

بچیاں جب نئے گھروں میں بیاہ کر جاتی ہیں تو ان کے خواب بھی نئے ہوتے ہیں، کیونکہ شادی سے پہلے ان کو سسرالی گھر کی جو تصویر اور خواب دکھائے جاتے ہیں۔ وہ اسی کو ذہن میں رکھ کر اپنے آنگن میں اترتی ہیں، وہ اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں رشتے ڈھونڈنا آسان نہیں، پہلے بھی رشتے تلاش کرنا مشکل عمل تھا۔

البتہ یہ آدم و حوا کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اللہ نے سکون اور افزائش نسل کی خاطر ہر جاندار کو جوڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ نئے گھر اور نئے خوابوں کی بات ہو رہی تھی لڑکی چاہے واجبی تعلیم کی حامل ہو اعلی تعلیم یافتہ ہو، کوئی پروفیشنل ڈاکٹر ہو یا پروفیسر ہو، ان کے خواب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جب وہ نئے گھر میں جاتی ہیں تو ان کے ذہن میں اپنے گھر کو بنانے، سنوارنے اور محبت سے رکھنے کے کئی ارادے ہوتے ہیں۔

لیکن نئے گھر کا ماحول انہیں اپنی سوچ کے برعکس ملتا ہے۔ اور یہی شاید ایک جائنٹ فیملی سسٹم کی خرابی ہے کہ وہ لڑکی جو صرف ایک شخص کے ساتھ زندگی گزارنے، اس کا مزاج سمجھنے کے لئے نکاح نامے پر دستخط کرتی ہے۔ اس کو پندرہ سولہ لوگوں کے مزاج، انداز اور سوچ سمجھنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ چلیں ساس اور سسر کا ساتھ ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

لیکن اکثر دیور جیٹھ ان کی بیویاں اور بچے اسی ایک چھت تلے پائے جاتے ہیں۔ اتفاق میں برکت ہے، لیکن اس طرح کا اتفاق کئی دفعہ بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے مختلف مزاج لوگوں کا رہنا، اختلاف، بدمزگی اور جھگڑے ہونا، بچوں کے معمول ڈسٹرب ہونا ایک عام سی بات ہو جاتی ہے۔ مرد حضرات تو کمانے کو گھروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔

لیکن جو گھر کی خواتین ہیں، وہ ایک عجیب ڈپریشن دباؤ اور تناؤ میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ انہیں اس ماحول میں چوبیس گھنٹے، ہفتوں، مہینوں اور سالوں رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر ساس سسر کا کردار بہت اہم ہے۔ جو پڑھے لکھے باشعور ساس سسر ہوتے ہیں۔ وہ تو حالات کو سمجھتے ہیں اور لڑکی کو اتنی سپیس دیتے ہیں۔ جو ایک نئی بیاہ کر آنے والی دلہن کو دی جانی چاہیے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اکثر ساس سسر لڑکی کو سپیس دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وہاں غلطی کا مارجن نہیں دیا جاتا وہاں کوتاہی پہ معاف کرنے کی روایت نہیں ہوتی، وہاں ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی روش اور میاں بیوی کے نجی معاملات میں مداخلت کی رسم عام ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر لڑکی جوائنٹ فیملی سسٹم میں ساتھ رہنے سے انکار کر دے اور علیحدہ۔

گھر کا مطالبہ کرے تو اس کے خلاف محاذ کھل جاتا ہے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ مل کر رہنے کے قابل نہیں ہے، یہ بانٹ کر کھانا نہیں چاہتی یا اس کا خون سفید ہو گیا ہے۔ دوسری طرف جن حالات سے وہ لڑکی گزر رہی ہوتی ہے۔ اس کو کوئی نہیں سمجھ پاتا گھریلو رویے اتنے سخت کر دیے جاتے ہیں کہ وہ لڑکی مستقل ڈپریشن کی مریضہ بن جاتی ہے۔

یہاں پر شوہر کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں اگلی پوسٹ میں بات کرتا ہوں۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ اسے چند سطروں میں نہیں سمیٹا جا سکتا۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed