Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujeeb Ur Rehman
  4. Bojh

Bojh

بوجھ

ڈیوڑھی میں جھاڑو لگاتے، چاول چنتے، ماں کے ساتھ لحاف کی روئی دھنتے پتا ہی نہ چلا وہ جوانی کی دہلیز پار کرگئی۔ سیاہ بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے۔ بر تلاش کرتے کرتے وقت کو ہی پر لگ گئے۔ گھر میں زیادہ جی ہی نہ تھے۔ علی بخش چوکیدار کی دو ہی تو بچیاں تھیں اور بن بیاہی بیٹھی تھیں۔ نہ ان کے ہنر میں کمی تھی نہ سگھڑاپے میں کجی، شکل و صورت چاند نہ سہی لیکن ماند بھی نہ تھی۔ جفاکش باپ نے ایف اے تک تعلیم کا زیور بھی پہنایا لیکن مسئلہ سارا تو دوسرے زیور کا تھا۔ علی بخش کے پاس دینے کو جہیز نہ تھا۔

لوگ آتے گھر دیکھتے، لڑکی دیکھتے اور کرائے کا مکان سنتے ہی کھسک جاتے، کسی کو مکان پر اعتراض نہ بھی ہوتا تو جہیز نہ ملنے کے امکان پر پلٙٹ جاتے۔ بڑی شادی کی عمر سے نکل گئی تو چھوٹی کی شناخت پریڈ شروع ہوئی۔ ایک دن سنا علی بخش بیمار پڑ گیا، کچھ دن ہسپتال داخل رہا، پھر ٹھیک ہو کر گھر آگیا۔ کسی نے مالی مدد کی تھی شاید، بیٹی کو سسرال کی خواہش کے مطابق جہیز دے کر رخصت کیا۔ بیماری رہنے کے بعد علی بخش چارپائی سے لگ گیا، پتا چلا کہ بیٹی کی خاطر ایک گردہ بیچ آیا تھا جس سے سسرال والوں کا گھر بھرا۔ پہلے کام سے رخصت لی پھر بعد دنیا سے ہی رخصت لے لی۔

یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے نجانے کتنے ایسے گھر ہوں گے جہاں جہیز جیسا اژدھا نجانے کتنی خوشیوں کو نگل گیا ہوگا۔ اس "لعنت" نے نہ جانے کتنی امیدوں اور روشن آنکھوں کے چراغ گل کردیے ہوں گے۔ کتنے والدین مقروض ہو کر قبروں میں جا لیٹے ہوں گے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ایک باپ کی ساری زندگی بیٹی کے جہیز کے لیے خود کو شب و روز کی بھٹی میں جھونکتے اور ماں کی تنکا تنکا جوڑنے میں گزر جاتی ہے۔

بیٹیاں پاوں پاوں چلنا شروع کرتی ہے تو ماں تکیے کاڑھنے، رکابیاں جوڑنے، کھیس بنانے میں لگ جاتی ہے۔ سونے جیسی بیٹی دے کر بھی باپ سونا نہ دینے کا طعنہ سنتا ہے۔ مجھے اس بات کی ازحد خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے بہت سے سلیم الفطرت افراد اب اس رسم کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں، بولتے ہیں، روکتے اور سمجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بڑا منافقانہ رویہ بھی سامنے آتا ہے کہ بیٹی والوں کو جہیز دیتے ہوئے تو اذیت اور بوجھ کا شدید احساس ہوتا ہے لیکن جب یہی والدین بیٹے کے لیے رشتہ لینے جاتے ہیں تو جہیز لینے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟

تب یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم نے کونسا جہیز کا تقاضا کیا ہے، اپنی خوشی سے بیٹی کو دے رہے ہیں، دلہن نے ہی برتنا ہے وغیرہ جب تک لوگ بیٹے والے ہوکر بیٹی کے والدین کی طرح نہیں سوچیں گے تب تک یہ لعنت معاشرے سے ختم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں جہیز کا رواج نہیں یہ دوہرا معیار ختم کرنا ہے صرف مذمت سے کچھ نہیں ہوگا ہمیں ایک قدم بڑھ کر اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ ورنہ ہمارے ضمیر اور والدین کے کندھوں پر بوجھ بڑھتا رہے گا کم نہیں ہوگا۔

Check Also

Madina Sharif Kahan Waqe Hai?

By Irfan Siddiqui