Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujeeb Ur Rehman
  4. Aurat Qabil e Sataish

Aurat Qabil e Sataish

عورت قابلِ ستائش

عورت کو ہم نے ہر شعبے میں کام کرتے دیکھا ہے کھیت ہو، کورٹ ہو، گائنی وارڈ ہو، دفتر ہو، بینک ہو، تعلیمی ادارے ہوں، پارلیمنٹ ہو، یا کوئی بھی جاب۔۔ اس میں عورت اپنے پورے طمطراق اور قابلیت کے ساتھ موجود ہے۔

گھر کے امور تو عورت کے ذمے ہیں ہی اور وہ ان کو بہت خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے لیکن جو خواتین گھر کے امور ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاوند، بھائی، باپ کا ہاتھ بٹا رہی ہیں اور بیرونی میدان میں بھی اپنی محنت سے سکہ جما رہی ہیں ان کا احترام میری نظر میں اور بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی بہت سی خواتین اپنے اپنے حصے کا کردار نبھا رہی ہیں کچھ لکھ رہی ہیں، کچھ موٹیویشنل سپیکر ہیں کچھ کوکنگ سکھا رہی ہیں تو کچھ گھرداری کے اسرار و رموز۔۔ میں ان سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں ستائش کے قابل سمجھتا ہوں۔

جب زمانہ اتنی ترقی کر گیا ہے اور انسانی سوچ کے زاویوں میں بھی اتنی تبدیلی آگئی ہے تو پھر ہمیں بھی اپنی سوچ اور رد عمل کے طریق کار کو بدلنا ہوگا۔ ان کے لکھے، ان کے کیے گئے کام کو صنفی امتیازات سے بالاتر ہوکر سراہانا ہوگا اور اچھے عمل کی تائید کرنی ہوگی بجائے یہ کہ ہم مذاق اڑائیں، کمنٹ میں یا ان باکس میں جاکر ذومعنی یا لغو باتیں کریں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ اپنی اپنی ڈومین میں کام کرنے والی ہر خاتون اتنی ہی معتبر، معزز اور قابل احترام ہے جتنی ہمارے اپنے گھر کی ہر خاتون۔۔

ہمیں اپنے ذہن سے ایک یہ بات بھی کھرچ ڈالنی ہوگی کہ جو خاتون کسی دفتر میں ملازمت کرنے کے لیے باہر نکلتی ہے تو وہ محض اس کا شوق ہے یا وہ اپنے گھریلو فرائض منصبی سے جان چھڑانا چاہتی ہے یا محض وقت گزاری کے طور پر باہر جارہی ہے یہ غلاظت ہے ہمارے دماغوں کی اختراع ہے اور کچھ نہیں۔

کسی بھٹے پہ کام کرنے والی خاتون ہو، کسی بس میں ہوسٹس بنی کوئی لڑکی ہو یا کسی جگہ رکشہ چلاتی کوئی ضرورت مند بچی ہو، آج وہ مرد کے ساتھ صحیح معنوں میں شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے گھر کے لئے بہترین کردار ادا کر رہی ہے۔

کام کرنا یا نہ کرنا اگرچہ عورت کی اپنی صوابدید پر ہے اگر اسے محسوس ہوتا ہے کہ میرے گھر میں بیٹھ کر بھی گھر کے حالات صحیح چل سکتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ باہر نکلے لیکن اگر کوئی خاتون کام کرنا چاہتی ہے چاہے وہ سوشل میڈیا پر موجود ہے چاہے وہ عملی زندگی میں موجود ہے تو اسے مکمل اسپیس دینی چاہیے تاکہ وہ اپنے پروں کا آزادانہ استعمال کرکے پرواز کر سکے۔

میں نے ہمیشہ خواتین سے چاہے وہ گھر کی ہو یا گھر سے باہر عزت، احترام اور تہذیب کا رشتہ رکھا۔ پچھلے ایک دو سالوں سے سوشل میڈیا پر بھی موجود ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرے کسی لفظ سےکم ازکم کسی خاتون کی دل آزاری نہ ہو اور نہ وہ میرے مذاق سے کبیدہ خاطر ہو۔ پھر بھی کبھی جانے انجانے میں لفظی یا معنوی لغزش سرزد ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔ میں ہمیشہ پہلے عزت دینے اور پھر وصول کرنے کا حامی رہا ہوں۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani