Ashiq Hussain
عاشق حسین
اس کا نام عاشق حسین تھا۔ اس کی ماں کو بھی بہت شوق تھا کہ میرا بیٹا کماؤ پوت بنے، لڑکا سیدھا سادا تھا بمشکل میٹرک پاس کر سکا۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی اور لاڈلا بھی تھا۔ ایک جگہ کام مل گیا اور گھر کا گزارا ہونے لگا، لیکن اب گھر والوں نے دیکھا کہ لوگ تو باہر جا کر پیسہ کماتے ہیں اور راتوں رات لکھ پتی بن جاتے ہیں۔ عاشق حسین پر بھی گھر والوں کا دباؤ بڑھا کہ وہ بھی باہر جا کر پیسہ کمائے تاکہ بہنوں کی شادیاں ہو سکیں اور گھر کے حالات میں سدھار آئے۔
عاشق حسین بیچارا باہر جانے کے لئے تیار ہوگیا ماں نے زیور بیچا اور وہ کوریا چلا گیا۔ اب کم تعلیم کے ساتھ اسے کونسا روزگار ملنا تھا اس نے وہی کیا جو کہ 70 فیصد پاکستانی باہر کے ملکوں میں جا کر کرتے ہیں وہ ایک کرین ڈرائیور بن گیا اور سارا دن مٹی، پتھروں اور ریت کے پہاڑوں میں گزرتا۔ وہ انسان سے مشین بن گیا اور دن رات اسی میں جتا رہا۔
آہستہ آہستہ وقت کا پہیا چلتا رہا عاشق حسین گھر پیسے بھیجتا رہا باری باری تینوں بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ عاشق حسین عمر کے چونتیسویں سال میں داخل ہو چکا تھا۔ تین سال بعد گھر آتا تو گھر والوں کی ھل من مزید کی رٹ ہوتی۔ سر کے بال گر گئے، رنگ گندمی سے سیاہی مائل ہوگیا، جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ چھتیس برس کی عمر میں جب چوتھی بہن بھی بیاہی گئی تو گھر والوں کو عاشق حسین کی شادی کا خیال آیا۔ خاندان سے ہی ایک رشتہ مل گیا۔ شادی کے تین ماہ بعد اسے پھر کوریا جانا پڑا۔
اب اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ صحت دن بدن خراب ہو رہی تھی۔ مٹی، گرد و غبار اور کثرت سگریٹ نوشی سے اسے پھیپھڑوں کا عارضہ لاحق ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر نے پھیپھڑوں کا سرطان تشخیص کیا۔ نئی نویلی دلہن گھر پہ تھی اور وہ کوریا کی سڑکوں پر۔ اب اس کی صحت مکمل طور پر جواب دے چکی تھی اور بھاری کام کرنا اس کے بس میں نہیں رہا تھا، لیکن گھر والے جس لائف سٹائل کے عادی ہو چکے تھے اب ان کا ہزاروں میں گزارا کرنا بہت مشکل تھا اس لیے لاکھوں گھر بھیجنے ضروری تھے۔
ایک دن گھر میں فون آیا کہ عاشق حسین سائٹ پہ گر کر بیہوش ہوگیا اور اب ہسپتال داخل ہے۔ گھر والے دعاؤں کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے تھے، ہسپتال میں علاج چلا تو ڈاکٹروں نے ادویات کے ساتھ آرام کا مشورہ دیا۔ کمپنی نے ایک بیمار شخص کا کیا کرنا تھا، کچھ بقایا جات دے کر فارغ کر دیا۔ وہ چند ہزار کورین وان لے کر پاکستان لوٹ آیا۔ اب وہ عاشق حسین نہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ واپس آیا تھا۔
گھر اب ایک شاندار کوٹھی میں تبدیل ہو چکا تھا، گیراج میں گاڑی کھڑی تھی، گھر میں ہر سہولت موجود تھی لیکن عاشق حسین اپنے آپ میں ختم ہو چکا تھا۔ بیوی چپ چاپ آنسو بہاتی رہتی۔ بیماری اس قدر بڑھ چکی تھی کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ پاکستان لوٹنے کے چار ماہ بعد عاشق حسین مر گیا۔ ایک عام سے گھر میں اب سب کچھ تھا مگر عاشق حسین نہیں تھا۔ پیسے کی پیاس نے اس کو نچوڑ لیا تھا۔
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں ہے، باہر مزدوری کرنے والے ہر دوسرے شخص کی کہانی ہے۔ وہ گھر والوں کے لیے پیسے کی مشین بن جاتے ہیں نہ ان کی اپنی ازدواجی زندگی ہوتی ہے نہ چین کی نیند۔ ان کی بیویاں شوہر کے جیتے جی بیواؤں والی زندگی گزارتی ہیں اور یہ گھر والوں کو ریال، درہم، ڈالر اور پاونڈ بھیجتے رہتے ہیں۔
پتا نہیں کتنے عاشق حیسن۔۔ جینے کے ہاتھوں مر جاتے ہیں۔