Transgender Act
ٹرانس جینڈر ایکٹ
سن 2017 میں ٹرانس جینڈر یعنی تبدیلی جنس کے نام سے قومی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں عیاری سے ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ دینے کے حوالے سے ایک بل پیش ہوا تو ملک کے بڑے پارٹیوں سمیت تمام لبرل پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر اس بل کی حمایت کی اور بل قومی اسمبلی و سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوکر 2018 میں باقاعدہ ایکٹ اور قانون بن گیا۔
اس وقت اس بل کے خلاف اتنا ہنگامہ اس وجہ سے برپا نہیں ہوا کہ وہ حکومت کا آخری سیشن تھا اور اسمبلیاں تحلیل ہونے والی تھی اس دوران اس بل کو سازش کے طور پر پاس کرالیا گیا۔ اس بل کے خلاف سینیٹر مشتاق احمد خان نے ترمیمی بل پیش کیا تو ایجنڈے پر آنے کی وجہ سے اس قانون کے غلط استعمال پر آواز اٹھائی گئی اور یوں اس قانون کے تمام بھیانک حقائق سامنے آئے۔
اب اس وقت اس ایکٹ کے خلاف دینی حلقوں اور سوشل میڈیا پر کافی گہماگہمی دیکھی جاسکتی ہے۔ عوام الناس میں اس ایکٹ کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ ایکٹ نہ صرف اسلامی اُصولوں کے خلاف ہے بلکہ خلاف دستور پاکستان بھی ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے گناہ کبیرہ کو قانونی تحفظ فراہم کرنا اور اللہ کے عذاب کو کھلم کھلا دعوت دینا ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کیا ہے؟
اس قانون میں بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق درج ہے، جیسے وہ تعلیم حاصل کرسکتے ہے، جاب کرسکتے ہے، علاج معالجہ ہسپتالوں سے کرواسکتے ہیں، عوامی مقامات پر جاسکتے ہیں، کسی شخص کو انہیں ہراساں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، انہیں وہی حقوق حاصل ہونگے جو عام لوگوں کو حاصل ہے۔ اور اسلام میں بھی خواجہ سراؤں کے حقوق موجود ہے۔
یہاں تک کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ مسئلہ اصل یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کون ہوتا ہے۔ کیا یہ خواجہ سرا اور ہیجڑے ہیں یا ان میں فرق ہے؟ تو جان لیجئے کہ اس بل میں ٹرانس جینڈر کی تین تعریفیں کی گئی ہیں۔
پہلی تعریف یہ ہے کہ وہ آدمی جس کے اعضاء میں پیدائشی ابہام (Sexual Ambiguity) ہے۔ تو یہ تعریف خواجہ سراء کی ہے اور اس کے لیئے درست لفظ انٹرسیکسں ہے۔
دوسری تعریف کے مطابق ٹرانس جینڈر وہ شخص ہے جو مکمل مرد ہے وہ کسی وجہ سے مثلاً ایکسیڈنٹ یا کوئی دوا کی وجہ سے مردانہ صلاحیت سے محروم ہوجائے۔
تیسری تعریف یہ ہے کہ ایسے افراد جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا عورت کی جنس ہوں مگر بڑے ہوکر کسی نفسیاتی اُلجھن یا معاشرتی دباؤ، ٹرینڈ یا ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش ہے۔ تو وہ بھی ٹرانس جینڈر کے کیٹگری میں آتے ہیں۔
اب ان تینوں تعریفوں میں صرف پہلا تعریف خواجہ سراؤں کی درست تعریف ہے اور باقی دو تعریفوں میں مقصد ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اور جو شخص اپنی جنس سے ناخوش ہے تو وہ نفسیاتی بیماری جینڈر ڈسپوریہ میں مبتلا ہے اس کو علاج کی ضرورت ہے نہ کہ جنس تبدیل کرنے کی۔ اس ایکٹ میں اصولی غلطی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو جنس مرد اور عورت بنائے ہے۔ تیسری کوئی جنس نہیں بنائی لیکن اس ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ خواجہ سراء شرعی رو سے معذورین کی کیٹیگری میں آتی ہیں۔ اس ایکٹ کی تعریفوں میں کئی خامیاں ہیں۔
خامی نمبر1: ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف (جس کیلئے درست لفظ انٹر سیکس ہے) میں بائیولوجیکل ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور عورت کو بھی۔۔ محض اپنے احساسات کی بناپر ٹرانس جینڈر قراردیا گیا۔
خامی نمبر2: دوسرا ان افراد کو یہ حق دیا گیا کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد یاعورت ہونے کے باوجود اپنی جنس اپنی مرضی سے، اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کرسکتے ہیں اور نادرہ تبدیلی کرنے کا قانونی طور پر پابندہوگا اور اس کیلئے اس قانون میں (Self Perceived Gender Identity) کی اصطلاح ڈالی گئی ہے۔
سب سے بڑی خرابی کہ اس سے ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی منفی خرابی نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے مگر اسکی خواہش / میلان طبع (Inclination) یہ ہے کہ وہ ایک عورت کی طرح پہچانا جائے تو وہ بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ، ڈاکٹر اور سرٹیفکیٹ کے، اس ایکٹ کی شق نمبر 3 اور سب شق نمبر 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ کسی بھی حکومتی ادارے میں خود کو بحیثیت عورت رجسٹرڈ کرو اسکتاہے یا چاہے تو ٹرانس جینڈر بھی رجسٹرڈ کروا سکتاہے۔۔ اور یہی حق ایک عورت کو بھی حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مرد جو حکومتی کاغذات میں اب عورت رجسٹرہے۔۔
1) کسی دوسرے مرد سے شادی بھی کرسکتا ہے۔۔!
2) عورتوں کیلئے مختص تمام جگہوں، ٹوائلٹ، وومن یونیورسٹی، سوئمنگ پول، جاسکتا ہے، عورتوں کے تمام قوانین اس پر لاگو ہوں گے۔ ایک عورت جو پیدائشی طور پر عورت ہے، مرد رجسٹرڈ ہو کر وراثت میں اپنا حصہ دگنا کروا سکتی ہے۔ تو یہ اسلام کے قانون وراثت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں جو تباہی آئے گی وہ ناقابل بیان ہے، نیز ہم جنس پرستی کا طوفان پورے معاشرے کو گھیر لے گا۔ اور خدانخواستہ ہم پر بھی قوم لوطؑ کی طرح آسمان سے پتھروں کی بارش اور وطن کے الٹنے کا عذاب نازل نہ ہو جائے۔
افسوس کہ جس مظلوم صنف یعنی حقیقی مخنث(Intersex) کیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے اور جن کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے، ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا، بلکہ جعلی مرد و عورت قانونی طور پر اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر بناکر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جولائی 2018 لے کر جون 2021 تک گزشتہ تین سالوں میں تقریباً تیس ہزار افراد نے اپنی میلان طبع اور اندرونی طور پر محسوس کئے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی اس جنس سے علیحدہ شناخت کیلئے درخواست دی ہے جو انہیں پیدائشی طور پر عطا(Allot) کی گئی تھی اور اب وہ اپنی جنس شناختی کاغذات میں تبدیل کروا چکے۔
1) ان میں سب سے زیادہ مرد ہیں، یعنی 16530 ایسے مرد تھے جنہوں نے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروایا۔
2) اس کے بعد 12154 ایسی عورتیں ہیں جنہیں پیدائش کے وقت لڑکی بتایا گیا تھا، مگر وہ اب خود کو مرد کہلوانا اور قانونی طور پر مرد بننا پسند کرتی ہیں۔
3) صرف 9 ایسے مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دراصل خواجہ سرا ہیں مگر ہمیں غلطی سے مردوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔
4) اس کے بالکل برعکس 21 خواجہ سراء وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں ہم تو مکمل طور پر مرد ہیں اور اب ہمیں مرد کہا جائے، جبکہ 9 خواجہ سراؤں نے خود کو عورت کہلوانے کیلئے درخواست دی۔
اس پورے ایکٹ میں خوفناک بات یہی ہے کہ ہمارے ملک میں ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا اور ہمارے دینی اساس، خاندانی نظام، نکاح، قانون وراثت اور اسلامی تہذیب و نظریاتی سرحدات پر حملہ کرنا ہے۔ ملک میں وہی مغربی LGTB کے ایجنڈے کو نافذ کرنا ہے اور مغرب کی طرح ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی فحاشی، عریانی، لادینیت کی طرف دھکیلنے کا پورا منصوبہ ہے۔ لیکن ہم اپنے ملک کے نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں اور اس غیروں اور اپنوں میں غداروں کے اس مذموم سازش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اور خلاف اسلام اور خلاف دستور پاکستان قانون سازی کو کبھی بھی منظور نہیں ہونے دینگے۔
سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس ایکٹ کے خلاف ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا ہے اور اس پر ایک اجلاس ہوچکا ہے اور دوسری اجلاس اکتوبر میں ہوگا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترامیم یہ ہیں کہ اس قانون میں ٹرانس جینڈر پرسن کی تعریف نمبر 2 اور 3 جس میں مکمل مرد و عورت کو ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا ہے وہ ختم کیاجائے۔
دوسری ترمیم یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کے لیے جنس کا تعین Self Perceived Gender Identity کے بجائے میڈیکل بورڈ سے مشروط کیا جائے۔
تمام محب دین، محب وطن عوام، علماء کرام، اسلامی تنظیموں، سوشل ایکٹیویسٹس اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے درد دل رکھنے والے مسلمانوں! اس خلاف اسلام اور خلاف دستور قانون کے خلاف کھڑے ہوں اور آواز اٹھائیں ہو سکتا ہے یہی حق کیلئے آواز اور جدوجہد ہمارے بخشش کا سبب بن جائیں۔