Nasha Aur Hamari Ijtemai Zimmedari
نشہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داری
عقل اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ کیونکہ اس عقل کے بدولت انسان اچھے برے اور صحیح وغلط میں تمیز کرسکتا ہے اور اسی عقل کی صلاحیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کی خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہمارے دین اسلام اور شریعت میں تمام احکام خداوندی کے پانچ بنیادی مقاصد ہیں جو کہ دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت، مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت ہیں۔ تو عقل کی حفاظت کرنا اور اسے ہر قسم خلل ونقصان سے بچانا دین اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ اب عقل کو نقصان کونسی چیز پہنچاتی ہے؟ اور اس پر پردہ کونسی چیز کی وجہ سے پڑتا ہے۔ تو وہ ہے نشہ۔
شریعت نے جن چیزوں کو انسان کیلئے حرام قرار دیا ہے اور جو چیز یں انسان کے جسم اور عقل کو نقصان پہنچانے والی ہے ان میں ایک نشہ آور چیز ہے۔ عربی میں نشہ اور نشہ آور چیز کیلئے "مُسْکِر" اور "خمر" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلم شریف کے حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ (کل مسکر خمر وکل مسکر حرام) "ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔"
حضرت عمرفاروق ؓ نے نشہ اور خمر کی حقیقت کچھ یوں بیان کی ہے کہ (الخمر ماخامرالعقل) "خمر (نشہ) وہ چیز ہے کہ جو عقل کوڈھانپ لے"۔
اب مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت مطہرہ نے ہر وہ نشہ آور چیز اور منشیات حرام قرار دے دیا ہے جو انسانی اعصاب اور عقل پر پردہ ڈالے اور انسان اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور مختلف قسم کے مہلک جسمانی اور روحانی بیماریو میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی نشہ آور چیز کو نجس اور قابل نفرت شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور اس سے اجتناب کرنے کا سختی سے حکم دیا گیا ہے۔ ہر قسم نشہ اور منشیات کا استعمال ہمارے دین میں حرام ہے اور معاشرے کیلئے ناسور اور زہر قاتل بھی ہے۔ کیونکہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق وکردار ہے، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کرکے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب بنادیتی ہے۔
نشہ خواہ چھوٹا ہوں یا بڑا، کم ہو یا زیادہ سب ہی مذموم ہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں جو لوگ اور نوجوان شروع سے معمولی نشے نسوار، سیگریٹ وغیرہ کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو یہاں سے اس کی تباہی وبربادی کا سامان شروع ہوجاتا ہے۔ حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ نشہ کی عادت بھی اسی طرح ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور پھر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، یہان تک کہ پھر زہر آمیز انجکشن کے بغیر تسکین نہیں ملتا۔ اور آج کل نوجوانوں میں مقبول نشہ "آئس" ہے۔
ماہرین کے مطابق "آئس" نشہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے کوئی منشیات لگتا بھی نہیں اور اس میں کوکین، چرس، ہیرون کی طرح کوئی بدبو بھی نہیں ہوتی، اس کی کرسٹل شکل اور بے بو خاصیت نے اس نشے کو دنیا بھر میں مقبولیت بخشی خاص طور پر طلبہ وطالبات اور نوجوان ہنرمند طبقہ اس کی لپیٹ میں آگیا، یہاں تک کے اب دفتروں بازاروں، دوستوں کی محفلوں سے نکل کر یہ نشہ اسکول کالجز اور یونیوسٹیوں تک پہنچ کر لاکھوں طلبہ و طالبات کو اپنا غلام بنا چکا ہے۔
ویسے تو منشیات کی ساری اقسام ہی انسان کو اندر سے کھوکھلا کرکے موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں لیکن بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق "آئس" نشہ دیگر تمام منشیات کی اقسام سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے، اسے استعمال کرنے والے کو ابتدا میں تو سرور و مزے کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ طاقت ور اور ذہین کوئی نہیں لیکن اصل میں یہ اس نشےکی وہ لالچ ہے جو اسے استعمال کرنے والے کو مزید نشہ کرنے پر مجبور کرتی ہے اور چند دنوں میں عادی بن جانے کےبعد اسے پینے والا سخت چڑچڑے پن اورموڈسوئنگ کا شکارہوجاتا ہے، اسکےبعد اسکی بھوک پیاس ختم ہوجاتی ہے جو اسےجسمانی طورپر انتہائی کمزورکردیتی ہے اور رفتہ رفتہ اسےاپنےدل و دماغ پرکنٹرول نہیں رہتا۔ دماغی کنٹرول پر گرفت کمزور ہونے کے بعد "آئس" نشے کا عادی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دوست میں تمیز کھو بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں "آئس " نشے کے عادی افراد کی جانب سے ہی اپنوں کے قتل، ریپ اور زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں جو اس نشے کا خطرناک ترین پہلو ہے۔ پھر اس نشے کے عادی افراد ہلکے ہلکے جرم کی جانب مائل ہونا شروع ہوجاتے ہے۔ اس کے اندرسماج کے خلاف نفرت بیدار ہوتی ہے جو اسے جرم کے دوران سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
ہم نے تھانوں کے وزٹ کے دوران پولیس آفیسرز کے ساتھ ایسے بہت سے واقعات و کیسز کا مشاہدہ کیا ہے کہ آئس نشہ میں مبتلا نوجوان اپنے ہی فیملی ممبرز کو قتل کرادیتے ہیں۔ والدین کو چاہیئں کہ اول معمولی نشے خاص کر نسوار، سیگریٹ پر بچوں سے سختی سے پیش آئے اور شروع مرحلے سے اس کی روک تھام کرلے ورنہ یہی معمولی نشہ خطرناک ناسور بن کر والدین اور معاشرے کیلئے ایک زہر قاتل کے شکل میں اُبھر کر آتا ہے۔ پھر بعد میں عادی افراد پر نصحیت، سختی، مارپیٹ وغیرہ کچھ اثر نہیں کرتی۔ آج کل کے غافل نوجوان اپنے جسم اور روح سے بے خبر نشہ کی وجہ سے اپنے اور اپنے والدین کے نقصان میں مگن ہے۔ اے نوجوانان ملت! آپ کی جوانی کی عمر زندگی کا خوبصورت بہار ہے اسے کیوں خزاں بنانے پر تلے ہوئے ہوں۔ ذرا اس کے نقصانات پر تو غور کرو۔
سب سے پہلا نقصان نشیئ کی اپنے صحت کا ہے۔ ڈاکٹرز فرماتے ہیں کہ منشیات ایک ست رفتار زہر ہے اور آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو کھوکھلا کرکے عمر کو گھٹاتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے آپ کی جسم اللہ کی طرف سے آپکے پاس امانت ہے اب اس کا خیال نہ رکھنا اور اس طرح ضائع کرنا امانت میں خیانت کا مرتکب ہونا ہے اور اس کا حساب دینا ہوگا۔ دوسرا نقصان مالی ہے۔ جتنے بھی منشیات ہیں وہ مالی لحاظ سے کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ اب منشیات کے عادی افراد اس کا استعمال تو اپنے اختیار سے شروع کر دیتے ہے مگر جب اس لت کے عادی بن جاتے ہیں تو اس مہنگے منشیات کو خریدنے کیلئے اپنے سارے مال کو داؤ پر لگادیتے ہیں، خواہ گھر میں روٹی میسر نہ ہوں، اھل وعیال بھوکے ہوں، علاج کیلئے پیسے میسر نہ ہوں مگر لازمی اپنے اس خوئے بد کو سب سے پہلے پورے کریں گے۔ تو یہ نشہ بندے کے مال، جائیداد اور تمام مالیات کو کوڑی داموں کھا جاتا ہے۔ نشے کا تیسرا نقصان سماجی پہلو کے حوالے سے ہے۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے، اور اسکے ساتھ مختلف لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ ایک آدمی باپ ہے تو اس پر بچوں کے حقوق و ذمہ داریاں عائد ہے۔ اگر بیٹا ہے تو والدین کی خدمت و حقوق کی پاسداری اس پر ہوتی ہے۔ اگر شوہر ہے تو بیوی بچوں کے حقوق و ذمہ داریاں اس سے متعلق ہیں۔ اور اگر بھائی ہے تو بہنوں کی پرورش و شادی بیاہ کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے۔ اب نشئی آدمی اس نشہ کے لت کی وجہ سے ان کے تمام اقسام کے حقوق و ذمہ داریوں سے بے خبر ہر وقت اپنے اس غلیظ پیاس بجھانے کے چکر میں رہتا ہے۔ اپنی زندگی بھی تباہ وبرباد کر دیتا ہے اور اپنے خاندان والوں کو بھی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
الحمدللہ ہم نیشنل یوتھ اسمبلی کے پلیٹ فارم سے پولیس اورنارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ گزشتہ تقریباً 10 سالوں سے منشیات کے خلاف آگاہی مہم چلارہے ہیں اور اب تک ہم ملک کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے تقریباً 8 ہزار نوجوانوں سے منشیات کے ترک استعمال کے حلف لے چکے ہیں۔ نیشنل یوتھ اسمبلی کے صدر جناب حنان علی عباسی صاحب نے نشئی کی زندگی پر ایک نظم لکھی ہے اور خود بھی پڑھی ہے جو کہ سننے والوں کو رلا دیتی ہے کیونکہ خدا نہ کریں یہ نوجوان ہمارے گھر میں بھی ہوسکتا ہے۔ اب بھی منشیات کے خلاف ہمارا مشن جاری ہے اور ملت کے طاقت یعنی نوجوان نسل کو اس تباہی سے بچانے کیلئے آگاہی مہم پر اداروں سے مل کر کام کررہے ہیں۔ یاد رکھئیے یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہر طبقہ پولیس فورس، اینٹی نارکوٹکس فورس اور ہر ایک کو اپنے بچوں، بھائیوں، خاندان، گلی محلوں، سکول، کالجز، یونیورسٹیز اور کام کرنے کی جگہوں کو اس ناسور سے بچانا ہوگا۔ اس کے سپلائرز، ایجنٹس اور ہمارے سماج کے دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہوگا ورنہ ہم اپنے آنے والے نسل اور معاشرے کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔