Mosam e Sarma Momin Ke Liye Mosam e Bahar
موسم سرما مومن کیلئے موسم بہار
سردی کا موسم اپنے جوبن پر ہے، پہاڑی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور پہاڑوں نے سفید چادریں اورڑھ رکھی ہیں۔ سیاح برف باری سے لطف اندوز ہونے کیلئے اس سخت سردی و سفری مشکلات کے باوجود پہاڑی علاقوں کا رُخ کرتے نظر آتے ہیں۔ سردی میں عموما ً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ، گرم بند کمرہ میں کہیں آرام سے بیٹھا جائے اور گپ شب ماحول ہوں اور ٹائم بیت جائے۔
آج میں آپ قارئین حضرات کا رُخ اس طرف موڑنا چاہتا ہوں کہ، سردی کے موسم کے حوالے سے ہماری شریعت اور نبی کریم ﷺ کے کیا تعلیمات ہیں؟ تاکہ اُن کو جان کر اور اس پر عمل کرکے فائدہ حاصل ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سردی کا موسم مومن کیلئے موسم بہار ہے۔ اس کا دن چھوٹا ہوتا ہے تو مومن روزہ رکھتا ہے، اور اس کی رات لمبی ہوتی ہے تو مومن قیام کرتا ہے۔ اس روایت میں ہمارے لیئے عظیم سبق پنہاں ہے کہ موسم سرما سے فائدہ لینا چاہیئے اور اسمیں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیئے۔
موسم سرما میں مومن کیلئے چند خیر کے پہلو، میں آپ کے سامنے گوش گزار کرانا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ روزے کے بیش بہا فضائل ہے، جس کا بدلہ اللہ ربّ العزت خود ادا فرماتے ہیں۔ نیکیوں پر حریص مسلمان، موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے، موسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے بندے کو بھوک وپیاس کا احساس کم ہوتا ہے۔ لہٰذا بڑی آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے بھی حدیث میں فرمایا ہے کہ ٹھنڈ (بڑی آسان) غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے۔
موسم سرما میں خیر کا اگلا پہلو نماز تہجد ہے۔ نماز تہجد اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا شیوہ رہاہے اور اُمت کے بڑے بڑے اولیاء کرام اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ، ہمیں جو بڑا رُتبہ عطا گیاہے وہ صرف رات کے آخری پہر میں دو رکعت تہجد پر ملا ہے۔ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل کیلئے نہایت موضوع ہیں، کیونکہ رات طویل ہوتی ہے اور اِن دنوں میں نماز عشاء سے لے کر فجر تک تقریباً 11 گھنٹوں تک وقت ہوتا ہے۔ بندہ اگر نماز عشاء کے بعد 4 گھنٹوں تک اپنے کام کاج کریں تو بھی باآسانی صبح 5 بجے اُٹھ سکتا ہے اور تہجد ادا کرسکتا ہے۔
موسم سرما میں خیر کا اگلا پہلویہ ہے کہ چونکہ پانی ٹھنڈا ہوتا ہے اور موسم بھی ٹھنڈا ہوتا ہے، اب اس حالت میں بستر سے اُٹھنا اور وضو کرنا نفس پر بھاری ہوتا ہے لیکن اس مشقت کے بدلے آپ کو صبر علی الطاعت اور اکمال وضو کا اجر ملتا ہے۔ یعنی آپ نے نفس کو کنٹرول کرکے ٹھنڈ برداشت کی اور اللہ کی عبادت میں کوتاہی نہیں کی اور ٹھنڈے پانی سے، باوجود تکلیف کے کامل وضو کرلیا تو حدیث میں وارددار رہے کہ، ایک دفعہ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاوں؟ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے اور تمہارے درجات بلند کردے؟
صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: سردی کی مشقت اور ناگوار ی کے باوجود کامل وضو کرنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم بڑھانا، پس یہی رباط ہے۔ اس موسم سرما میں خیر کا اگلا پہلو صدقہ وخیرات کا ہے۔ صدقہ وخیرات سے مال میں اصافہ ہوتا ہے اور کسی محتاج کی ضرورت پوری کرنے پر اللہ تعالیٰ آپ کے حاجات پوری فرماتے ہیں۔
موسم سرما میں اپنے آس پاس پڑوس میں غریب غرباء اور مدارس کے طلباء پر نظر دوڑائیں جو کہ سردی سے بچنے کیلئے سویٹر، چادر، لحاف اور جیکٹ نہیں خرید سکتے، اسی طرح بہت سے لوگوں کے گھرمیں کام نہ ملنے کی وجہ سے یا سرپرست کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے راشن نہیں ہوتا اور بچوں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ اب یہ صاحب ثروت لوگوں کیلئے نیکی کمانے کا ایک بہتر موقع ہے کہ وہ اسی کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔
مشہور تابعی اور کتب ستہ کے راوی صفوان بن سیلمؒ ٹھنڈ کے موسم میں ایک شب مسجدنبوی ﷺسے باہر نکلے، دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اور اس کے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کیلئے کپڑے نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اُتاری اور اس شخص کو پہنا دی، اس شب بلاد شام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ سلیم بن صفوان رح صرف ایک قمیص صدقہ کرنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئے۔ وہ شخص اس وقت مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوا اور مدینہ آکر صفوان بن سلیمؒ کا پتہ دریافت کیا اور ان کو اپنا خواب سنایا۔
محترم قارئین موسم سرما کو غنیمت جان کر فائدہ لیں، کیا پتہ اگلا موسم سرما نصیب ہی نہ ہوں۔