Wahdat Maut Ke Baad He Kyun?
وحدت موت کے بعد ہی کیوں؟

سید منور شاہ کے قبرستان کی طرح، ہر شہر، قصبے اور بستی کے قبرستان میں بے شمار لوگ دفن ہوتے ہیں۔ وہی لوگ جو زندگی میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے، فرقوں میں بٹے ہوئے تھے، نظریاتی، مذہبی اور سماجی تفریق کا شکار تھے۔ لیکن موت کے بعد سب یکساں ہو جاتے ہیں، ان کے درمیان کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ یہ منظر ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ اختلافات، نفرتیں اور تعصبات سب فانی ہیں، مگر انسانیت باقی رہتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع سید منور شاہ کا قبرستان ایک منفرد مثال ہے، جہاں نہ صرف مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان دفن ہیں، بلکہ مسیحی، سکھ اور ہندو بھی یہاں اپنی آخری آرام گاہ پاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں الگ الگ شناخت رکھتے تھے، مختلف عقائد اور رسومات کے پیروکار تھے، مگر موت کے بعد سب ایک ہی زمین میں جا ملے۔ یہ قبرستان نہ صرف ایک تدفین گاہ ہے بلکہ انسانیت کی وحدت اور برابری کی عملی تصویر بھی ہے۔
یہ حقیقت ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں فرقہ واریت نے گہرے نقوش چھوڑے، جہاں مختلف مکاتبِ فکرکے لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے بھی قاصر ہیں، وہاں ایک ایسا مقام موجود ہے جو بغیر کسی تفریق کے سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب مرنے کے بعد کوئی تفریق باقی نہیں رہتی تو پھر زندگی میں ہم کیوں ایک دوسرے کے عقائد، خیالات اور شناخت پر سوال اٹھاتے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، کمزور کرنے اور تقسیم کرنے میں لگے رہتے ہیں؟
فرقہ واریت کے دنوں میں ڈیرہ اسماعیل خان بھی دیگر شہروں کی طرح خونریز تنازعات کی لپیٹ میں رہا۔ مختلف مکاتبِ فکرکے لوگ آئے دن نشانہ بنتے رہے، نفرت کی آگ میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر جب تدفین کا وقت آتا تھا تو یہی لوگ ایک ہی قبرستان میں دفن کیے جاتے تھے۔ یہ منظر حقیقت میں انسان کے بنائے ہوئے فرقوں اور نظریاتی دیواروں کی شکست کا اعلان ہوتا تھا۔ وہی لوگ جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، ایک ہی مٹی میں جا ملتے تھے۔ اگر زندگی میں یہی رویہ اپنایا جاتا تو شاید بے شمار جانیں بچائی جا سکتی تھیں، شاید محبت، رواداری اور اخوت کو فروغ دیا جا سکتا تھا۔
یہی اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہی اصول اپنائیں جو موت کے بعد لاگو ہوتے ہیں۔ ہر مذہب اور مسلک کا بنیادی پیغام امن، محبت، بھائی چارہ اور بھلائی ہے۔ اگر کسی کا مسلک اسے ایک اچھا انسان نہیں بناتا تو وہ اسے اپنے مذہب کا اچھا پیروکار بھی نہیں بنا سکتا۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء، مصلحین اور بڑے انسان آئے، ان سب کا مقصد ایک ہی تھا، انسانیت کی فلاح، محبت کی ترویج اور امن کی بحالی۔
اگر ہم واقعی اپنے مذہب کے سچے پیروکار بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی میں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا جن پر ہم موت کے بعد عمل درآمد دیکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو وسعت دینی ہوگی، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، اختلاف کو دشمنی بنانے کے بجائے فکری تنوع سمجھنا ہوگا۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ انسانیت کسی ایک عقیدے، مسلک یا فرقے کی میراث نہیں بلکہ یہ ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔
یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے اور یہی ہماری اصل ذمہ داری بھی۔

