Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Ustad Ki Dua Se Mehroom Nasal

Ustad Ki Dua Se Mehroom Nasal

استاد کی دعا سے محروم نسل

کیا آپ نے کبھی لمحہ بھر کو یہ سوچا ہے کہ آج کے طالبِ علم سے دراصل وہ کون سی دولت چھین لی گئی ہے، جو اس کے ماضی کے ہم عمر طلبہ کے پاس وافر تھی؟ وہ کون سی نعمت ہے جو اب نایاب ہو چکی ہے؟ شاید آپ کا پہلا خیال جدید سہولتوں کی کمی یا نصاب کی مشکل کی طرف جائے، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور روح کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ آج کا طالبِ علم اپنے استاد کی دعا سے محروم ہوگیا ہے۔

یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ہماری تعلیمی اور اخلاقی زندگی کا المیہ ہے۔ استاد وہ ہستی ہے جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ، ایک دعا، ایک ہدایت انسان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ لیکن آج کا طالبِ علم اس دعا سے، اس تعلق سے اور اس روحانی رشتے سے دور جا چکا ہے۔ یہ دوری صرف جسمانی نہیں، بلکہ قلبی، فکری اور جذباتی سطح پر بھی پیدا ہو چکی ہے۔

پہلے زمانوں میں استاد اور شاگرد کے درمیان ایک رشتۂ محبت، احترام اور عقیدت ہوتا تھا۔ استاد صرف علم نہیں دیتا تھا بلکہ کردار کی تعمیر بھی کرتا تھا۔ شاگرد استاد کے چہرے سے سبق لیتا، اس کے لہجے سے تربیت حاصل کرتا اور اس کی دعاؤں میں اپنی کامیابی تلاش کرتا تھا۔

استاد آج بھی پڑھانا چاہتا ہے، مگر اس کے اندر وہ خلوص، وہ جذبہ اور وہ قلبی وابستگی کم ہوتی جا رہی ہے جو کبھی تعلیم کو عبادت بناتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ طالب علم نے استاد کی قدر کم کر دی ہے۔ جب شاگرد استاد کو محض ایک تنخواہ دار سمجھنے لگے تو پھر علم کا فیض رُک جاتا ہے۔ استاد کا دل بھی تبھی لگتا ہے جب شاگرد کے چہرے پر طلبِ علم کی چمک دکھائی دے، جب شاگرد احترام سے بات کرے، جب وہ اپنے استاد کے سامنے عاجزی سے بیٹھے۔

لیکن آج کے کلاس روم میں یہ مناظر ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ آن لائن لیکچرز، گوگل کے جوابات اور یوٹیوب کے شارٹ ویڈیوز نے علم کے سفر کو تو آسان بنا دیا ہے مگر استاد کے رشتے کو بے روح کر دیا ہے۔ شاگرد اب سوالات سرچ انجن سے پوچھتا ہے، استاد سے نہیں۔ وہ جو کبھی استاد کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کر ایک لفظ کی تشریح سنتا تھا، اب چند سیکنڈ کی ویڈیو سے پورا مضمون سمجھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معلومات تو بڑھ رہی ہیں مگر تربیت ختم ہو رہی ہے۔

یہ بات میں صرف ایک مبصر یا ناقد کے طور پر نہیں، بلکہ ایک تجربہ کار معلم کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ طلبہ دیکھے ہیں جنہوں نے استاد کے احترام کو اپنی عادت بنایا اور وہی طلبہ آج کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے برعکس، وہ طلبہ جنہوں نے علم کو صرف "گریڈ" اور "ڈگری" کے لیے حاصل کیا، وہ آج بھی زندگی کی دوڑ میں خود کو خالی محسوس کرتے ہیں۔

استاد کی دعا ایک ایسی توانائی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ وہ روحانی قوت ہے جو انسان کو راستہ دکھاتی ہے، جو مشکلات میں سہارا بنتی ہے۔ مگر جب طالب علم اس دعا سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کی ذہانت بھی بیکار ہو جاتی ہے اور اس کی قابلیت بھی بے سمت۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کا طالب علم ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس تو ہے، مگر اخلاقی اور روحانی طور پر قابلِ رحم ہے۔ وہ ہر جواب جانتا ہے مگر "احترام" کا مفہوم بھول گیا ہے۔ اس نے استاد سے سوال کرنے کا سلیقہ تو سیکھ لیا ہے مگر استاد کے سامنے خاموشی سے سننے کا ادب کھو دیا ہے۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب طالب علم استاد کی موجودگی میں بھی غیر حاضر ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ کتاب پر نہیں ہوتی ہے۔ وہ لیکچر سنتا نہیں بلکہ "ریکارڈ" کرتا ہے، مگر علم اس کے دل میں منتقل نہیں ہوتا۔ وہ علم کو یاد تو کرتا ہے مگر جذب نہیں کرتا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ ہم نے تعلیم کو ایک "پیشہ" بنا دیا اور تربیت کو بھلا دیا۔ استاد کے احترام کے بغیر علم، ایک جسم ہے جس میں روح نہیں۔ دعا کے بغیر کوشش، ایک دوڑ ہے جس کا اختتام کہیں نہیں۔

میری یہ گزارش آج کے ہر طالبِ علم سے ہے کہ اپنے استاد کے ساتھ دوبارہ وہی تعلق پیدا کریں جو کبھی ہمارے بڑوں کے ہاں ہوتا تھا۔ استاد کو محض مضمون پڑھانے والا شخص نہ سمجھیں بلکہ اپنے کردار کا معمار جانیں۔ اس کی آنکھوں سے علم کی روشنی، اس کے الفاظ سے دعا اور اس کے دل سے محبت لینے کی کوشش کریں۔

اگر ہم نے اپنے استاد کی دعا دوبارہ حاصل کر لی، تو یقین جانیں کہ ہماری منزلیں قریب آ جائیں گی اور اگر ہم اسی طرح اس دعا سے دور رہے، تو علم کے باوجود ہماری زندگیاں خالی رہیں گی۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan