Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Ramzan Aur Haqeeqi Khushi Ki Justuju

Ramzan Aur Haqeeqi Khushi Ki Justuju

رمضان اور حقیقی خوشی کی جستجو

رمضان المبارک کا مہینہ محض عبادات اور ریاضت کے لیے مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک ایسا بابرکت موقع ہے جو روحانی، ذہنی اور جذباتی تجدید کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ محترم احمد جاوید صاحب اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں کہ "اس رمضان خوش رہنے کی دعائیں کریں"۔ یہ جملہ بظاہر سادہ نظر آتا ہے، مگر اس کے پس پردہ ایک گہرا فلسفہ کارفرما ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی خوشی کیا ہے؟ اور کیا آج کے دور میں ہم واقعی خوش رہنا جانتے ہیں؟ نفسیات، فلسفہ اور روحانیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید انسان خوشی کے مفہوم کو سمجھنے اور اسے حاصل کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے۔ آج کا انسان ہر سہولت، ہر آسائش اور ہر مادی شے کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اندر سے بے سکون اور اضطراب کا شکار ہے۔

خوشی کی عمومی تعریف مادی کامیابی، آسائشات اور عیش و عشرت سے وابستہ کر دی گئی ہے۔ لیکن حقیقت میں خوشی کوئی بیرونی شے نہیں بلکہ ایک داخلی کیفیت ہے۔ مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ اور وکٹر فرینکل کے مطابق، خوشی دراصل ایک خاص ذہنی اور جذباتی توازن کا نام ہے جو انسان کو سکون اور اطمینان بخشتا ہے۔

بچپن میں ایک عام سی چیز، جیسے کوئی کھلونا یا بارش میں بھیگنا، ہمیں بے حد خوشی دیتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے، ہماری خوشی کا انحصار زیادہ پیچیدہ اور غیر ضروری چیزوں پر ہوتا چلا گیا۔ آج کے دور میں ہم خوشی کو کسی بڑی کامیابی، مہنگی گاڑی، عالی شان گھر، یا سوشل میڈیا پر پذیرائی سے مشروط کر چکے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اصل خوشی کہیں کھو گئی اور ہم ایک بے مقصد دوڑ میں شامل ہو گئے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق، انسانی جسم میں دو خاص کیمیکلز ڈوپامین اور سیروٹونن خوشی اور مسرت کے بنیادی ذرائع ہیں۔ جب ہم کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں، یا کسی خوشگوار تجربے سے گزرتے ہیں، تو ہمارا دماغ ڈوپامین خارج کرتا ہے، جس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔

لیکن جدید دور میں ایک المیہ یہ ہے کہ ہم مصنوعی ذرائع سے ان کیمیکلز کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ، سوشل میڈیا، نشہ آور اشیاء اور دیگر عارضی مسرتیں ہمیں لمحاتی خوشی تو دے سکتی ہیں، لیکن طویل المدتی سکون نہیں دے پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو بار بار دہرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن پھر بھی وہی خوشی دوبارہ حاصل نہیں کر پاتے۔

آج کا انسان سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ چاند پر بستیاں بسانے کے منصوبے زیر غور ہیں، مصنوعی ذہانت (AI) روزمرہ کے فیصلوں میں معاون ثابت ہو رہی ہے اور دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ خوشی کی شرح (Happiness Index) دنیا میں مسلسل گرتی جا رہی ہے۔

یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آخر ہم خوش کیوں نہیں ہیں؟

مسابقتی زندگی: ہر انسان دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی موجودہ حالت کو قبول نہیں کرتا اور مسلسل ایک نئی خواہش کی تکمیل میں لگا رہتا ہے۔

مادی اشیاء پر انحصار: ہم نے خوشی کو برانڈڈ کپڑوں، قیمتی گاڑیوں اور مہنگے موبائل فونز سے وابستہ کر لیا ہے، لیکن یہ سب چیزیں وقتی خوشی دیتی ہیں۔

روحانی کمی: ہم نے اپنی روحانی اقدار اور عبادات کو محدود کر دیا ہے، جبکہ حقیقی خوشی اور سکون کا گہرا تعلق روحانی اطمینان سے ہے۔

تعلقات میں کمزوری: آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں میں ایک مصنوعی پن پیدا کر دیا ہے۔ حقیقت میں لوگ ایک دوسرے سے زیادہ دور ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے جذباتی خوشی میں کمی آئی ہے۔

رمضان المبارک ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں حقیقی خوشی کی تلاش کریں۔ اس ماہ میں کی جانے والی عبادات، روزہ، صدقات اور دعا ہمیں باطنی سکون اور خوشی فراہم کر سکتی ہیں۔

شکر گزاری اپنانا: شکر گزاری وہ خوبی ہے جو انسان کے اندرونی سکون اور خوشی کو بڑھاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں موجود نعمتوں پر غور کریں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم پہلے ہی بہت کچھ رکھتے ہیں جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔

سادگی اور قناعت: رمضان ہمیں سکھاتا ہے کہ کم میں زیادہ خوشی کیسے محسوس کی جا سکتی ہے۔ کم کھانے، کم خواہشات اور کم لالچ میں زیادہ خوشی اور سکون موجود ہوتا ہے۔

دوسروں کی مدد کرنا: نفسیاتی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے کیمیکلز زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ رمضان کے دوران صدقہ و خیرات اس کا بہترین ذریعہ ہیں۔

روحانی تعلق مضبوط کرنا: نماز، تلاوتِ قرآن اور دعا انسان کے دل کو مطمئن کرتی ہے اور یہی حقیقی خوشی کی بنیاد ہے۔

حقیقی خوشی کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں غیر ضروری خواہشات اور بے جا توقعات کو کم کریں۔ جب انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے، تو وہ اپنے حال میں خوش رہنا سیکھ جاتا ہے۔

اس رمضان ہمیں اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ محبت، ہمدردی اور اخلاص کا مظاہرہ کریں۔ کسی کی مدد کرنا، کسی کو معاف کر دینا اور کسی کو خوش دیکھ کر خود خوش ہونا وہ خوبیاں ہیں جو حقیقی خوشی کے لیے ضروری ہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس رمضان اپنی روحانی ترقی پر کام کریں۔ قرآن کی تلاوت اور اس پر غور و فکر، استغفار اور دعا اور اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش وہ عناصر ہیں جو انسان کو حقیقی خوشی کی طرف لے جاتے ہیں۔

احمد جاوید صاحب کا مشورہ کہ "اس رمضان خوش رہنے کی دعائیں کریں" ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ خوشی محض ایک دعا نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جسے ہم اپنی سوچ اور عادات میں لا کر حاصل کر سکتے ہیں۔

حقیقی خوشی مادی چیزوں میں نہیں بلکہ ان لمحات میں ہے جہاں ہم سادگی، شکر گزاری اور روحانی سکون کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب ہم ایک معصوم بچے کی طرح زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں میں خوشی تلاش کرنا سیکھ لیں گے، تبھی ہم واقعی کامیاب و کامران ہوں گے۔

یہ رمضان ہمیں ایک بار پھر موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور ان خوشیوں کو واپس لانے کی کوشش کریں جو وقت کے ساتھ کہیں کھو گئی ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari