Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Nazar Andaz Shuda Zarurat

Nazar Andaz Shuda Zarurat

نظر انداز شدہ ضرورت

ایک دوست کی شادی کا کارڈ موصول ہوا جس پر نہایت خوبصورتی سے لکھا تھا: "وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوہ ہے"۔

یہ عبارت دیکھ کر دل میں ایک عجیب سا جوش پیدا ہوا۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر خود کو بھی ان عظیم لوگوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ لہٰذا، مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی ہم شادی ہال پہنچ گئے، نہایت فخر اور خوشی کے ساتھ۔

لیکن جب ہم ہال میں داخل ہوئے تو ہماری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہاں صرف سات آٹھ افراد ہی موجود تھے، جو ہماری ہی طرح وقت کی پابندی کو اپنی عظمت کا حصہ بنانے کے خواہشمند تھے۔ دل کو تسلی دی کہ شاید باقی مہمان راستے میں ہوں گے، یا ہمیں ہی کچھ جلدی ہوگئی ہو۔

خیر ہم بھی ان چند مہمانوں کے ساتھ جا کر ایک طرف بیٹھ گئے اور مقررہ وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ شادی ہال کے منتظمین، دولہا دلہن اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں جاننے کی کوئی صورت نہ تھی۔

آخر کار، تقریب ولیمہ تقریباً سوا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی۔ کھانے شروع ہونے پر ہمیں احساس ہوا کہ ہم عظیم لوگوں کی فہرست میں تو شامل ہو گئے، لیکن اس عظمت کی قیمت اپنے قیمتی وقت کی قربانی دے کر چکانی پڑی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کی قدر نہ کرنا ہمارے معاشرے میں ایک عام اور افسوسناک رویہ بن چکا ہے۔ ہم وقت کی پابندی کو ایک معمولی بات سمجھتے ہیں اور اس عادت کے سنگین نتائج کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رویہ نہ صرف ہمارے انفرادی بلکہ اجتماعی معاملات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

وقت کی اہمیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک انمول سرمایہ ہے جسے ضائع کرنا خود اپنے اور دوسروں کے حق میں زیادتی کے مترادف ہے۔ لیکن افسوس، ہم جنازے جیسی سنجیدہ تقریبات سے لے کر شادیوں اور دینی اجتماعات تک ہر جگہ دیر کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ ہماری زندگی کی تنظیم کو بگاڑ رہا ہے، جس کے اثرات ہماری کامیابی، تعلقات اور اخلاقیات پر نمایاں ہیں۔

منیر نیازی کی نظم کا یہ مصرعہ "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں" گویا ہمارے رویے کا آئینہ دار بن چکا ہے۔ یہ تاخیر نہ صرف ہمیں دوسروں کی نظر میں غیر ذمہ دار ظاہر کرتی ہے بلکہ کئی مواقع پر ہمارے لیے شرمندگی اور نقصان کا سبب بھی بنتی ہے۔

دوسری طرف، جہاں ہمیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، وہاں ہم جلد بازی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی جلد بازی سڑکوں پر حادثات، تعلقات میں بگاڑ اور کاموں میں ناقص نتائج کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً موٹر سائیکل پر جلدی پہنچنے کے چکر میں ہم نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

یہ رویہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وقت کی قدر و اہمیت کو بچوں کی ابتدائی تربیت کا حصہ بنایا جائے۔ انہیں یہ سمجھایا جائے کہ ہر کام کے لیے ایک مخصوص وقت ہوتا ہے اور وقت پر کام کرنا نہ صرف زندگی کو منظم کرتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

ہمارے دین میں وقت کی پابندی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ نماز کے اوقات، روزے کی شرائط اور دیگر عبادات ہمیں وقت کی اہمیت سکھاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان اصولوں کو اپنی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نافذ کریں اور وقت کی پابندی کو اپنی عادت بنا لیں۔

وقت کی قدر کا شعور پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں چند اصول اپنائیں:

1۔ وقت پر پہنچنے کو اپنا مقصد بنائیں اور اس کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کریں۔

2۔ غیر ضروری جلد بازی اور تاخیر سے بچنے کی عادت ڈالیں۔

3۔ بچوں کو عملی طور پر وقت کی اہمیت سکھائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

4۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ان کی اصلاح کریں۔

اگر ہم ان نکات پر عمل کریں تو نہ صرف ہماری زندگی منظم ہو جائے گی بلکہ ہم دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن سکیں گے۔ وقت کی پابندی ہمارے کردار اور رویے کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے اور یہ خوبصورتی ہمارے معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan