Na Ehli Aur Nizam Ki Barbadi
نااہلی اور نظام کی بربادی

سفارش ایک ایسی معاشرتی وبا ہے جو ہماری قومی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت ہے جس نے نہ صرف ہماری اخلاقی بنیادوں کو کمزور کیا بلکہ ہمارے اداروں کو بھی نااہل افراد کے سپرد کر دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم سفارش کی خرابیوں اور اس کے معاشرتی اثرات پر بات کریں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہ عمل ہمیں کن مسائل میں دھکیلتا ہے۔
میری زندگی کا ایک واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے جب میں نے غلطی سے ایک محفل میں یہ کہہ دیا کہ فلاں شخص سے میرا تعلق ہے۔ اس جملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک شخص، جس سے میرا اسی محفل میں تعارف ہوا تھا، فوراً میرے پاس آیا اور اپنی ایک سفارش پیش کر دی۔ میں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سفارش کو اپنی یا کسی اور کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ میرے والد نے ہمیشہ مجھے یہی نصیحت کی کہ محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرو، سفارش کے سہارے نہیں۔
ہمارے معاشرے میں سفارش کا کلچر اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اکثر والدین اپنے بچوں کے لیے ایسے محکموں میں سفارش کرواتے ہیں جہاں وہ خود اہل نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اہل افراد پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ رویہ صرف ایک فرد کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ پورے نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ نوجوان، جن کے لیے سفارش کی جاتی ہے، اکثر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی بجائے وقت ضائع کرتے ہیں۔ ٹک ٹاک اور دیگر غیر ضروری مشاغل ان کی زندگی کا محور بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی اپنی ترقی کو روکتا ہے بلکہ قوم کی مجموعی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔
سفارش کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ میرٹ کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ جب ایک اہل شخص کو اس کے حق سے محروم کیا جاتا ہے تو اس کے دل سے نکلنے والی بددعائیں نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے نظام کو برباد کر سکتی ہیں۔ رشوت وقتی فائدہ دے سکتی ہے، مگر سفارش معاشرے کو دیرپا نقصان پہنچاتی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم خود کو اُس شخص کی جگہ پر رکھیں جس کا حق سفارش کے ذریعے چھینا جا رہا ہے، تو ہماری کیا حالت ہوگی؟ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی محنت اور قابلیت پر بھروسہ کریں، نہ کہ دوسروں کے ذریعے راستے نکالنے پر۔
سفارش ایک سماجی بیماری ہے جو ہماری اخلاقی، تعلیمی اور انتظامی نظاموں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور میرٹ کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

