Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Musbat Tarz e Fikr

Musbat Tarz e Fikr

مثبت طرزِ فکر

ہر انسان اپنی زندگی میں کامیابی اور خوشحالی چاہتا ہے، مگر اکثر ہم اپنی توانائیوں کو بے مقصد سرگرمیوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ سقراط کا کہنا تھا، "اپنی ذات کو پہچانو، یہی حقیقی دانشمندی ہے"۔ اگر ہم اپنی ذات پر غور کریں، اپنی سوچ اور رویوں کا تجزیہ کریں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کامیابی کا راستہ ہمارے اندر ہی موجود ہے۔ مگر ہم دوسروں کی رائے، سماجی توقعات اور وقتی فائدے کے چکر میں اپنی اصل صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے۔

ہم معاشرتی ترقی کی خواہش رکھتے ہیں، مگر قانون اور اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ ہم ایمانداری کے خواب دیکھتے ہیں، مگر خود ایماندار نہیں بنتے۔ کاروباری طبقہ چاہتا ہے کہ رمضان میں چیزیں سستی ہوں، مگر جب خود بیچنے کا موقع ملے تو منافع دوگنا کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ یہ رویہ ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جو ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کنفیوشس نے کہا تھا، "معاشرے کی اصلاح فرد کی اصلاح سے شروع ہوتی ہے"۔ جب تک ہم خود بہتر نہیں ہوں گے، ہمارا معاشرہ بھی بہتر نہیں ہوگا۔

دوسروں کی رائے کی قید ایک اور بڑی رکاوٹ ہے جو ہمیں مثبت سرگرمیوں میں توانائیاں لگانے سے روکتی ہے۔ ہم اکثر یہ سوچ کر کسی نئے کام کا آغاز نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اسی خوف کی وجہ سے کئی باصلاحیت افراد زندگی میں وہ کچھ نہیں کر پاتے جو وہ کرسکتے تھے۔ البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے، "وہ شخص کبھی ترقی نہیں کر سکتا جو ہر وقت دوسروں کی رائے کا محتاج رہے"۔ اگر ہم واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھنا ہوگا اور تنقید کے خوف سے باہر نکلنا ہوگا۔

یہی سوچ تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے کا باعث بنتی ہے۔ ایک لکھاری اگر یہ سوچے کہ لوگ اس کے کالم پر کیا کہیں گے، تو وہ کبھی آزادانہ اور موثر تحریر نہیں لکھ سکتا۔ ایک کاروباری اگر یہ سوچے کہ مارکیٹ میں موجود بڑے برانڈز سے مقابلہ کیسے ہوگا، تو وہ اپنا کاروبار شروع ہی نہیں کرے گا۔ اسی طرح، زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کی رائے سے آزاد ہوکر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔ نطشے کا کہنا تھا، "جو شخص اپنی راہ خود نہیں چنتا، وہ دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے"۔

یہ سب محض خیالات نہیں بلکہ عملی اصول ہیں، جنہیں اگر ہم اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو نہ صرف خود کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے خود احتسابی ضروری ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان سے سیکھنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی کریں، تو ہمیں خود پہلے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایمانداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی میں ایمانداری کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں وہ تمام تبدیلیاں اپنے اندر پہلے خود لانی ہوگی جو ہم دوسروں میں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے اقدامات بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔ اگر آپ کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تو کم از کم چھوٹے اچھے کام ضرور کریں۔ اگر ہم اپنے کام کو ایمانداری سے انجام دیں، وقت کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے پورا کریں، تو معاشرہ خود بخود بہتری کی طرف بڑھنے لگے گا۔

قوانین کی پاسداری ترقی یافتہ قوموں کا خاصہ ہے۔ وہاں کے لوگ قوانین کو اپنے حق میں توڑنے کے بجائے خود کو قوانین کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے مگر خود کسی اصول پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا، "ترقی انفرادی اور اجتماعی نظم و ضبط کے بغیر ممکن نہیں"۔

صلاحیتوں کا درست استعمال کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، مگر اکثر ہم اپنی صلاحیتوں سے بے خبر رہتے ہیں یا ان کا درست استعمال نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر مثبت کاموں میں لگائیں، تو نہ صرف خود ترقی کریں گے بلکہ ہمارا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ کارل مارکس کا کہنا تھا، "ہر شخص کی اصل طاقت اس کی صلاحیت میں پوشیدہ ہوتی ہے، اسے پہچاننا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے"۔

یہ سب اصول اگرچہ سادہ لگتے ہیں، مگر عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کے لیے ہمیں اپنی روایتی سوچ کو بدلنا ہوگا اور خود کو مثبت سمت میں لے جانا ہوگا۔ ہمیں دوسروں کی خامیوں پر انگلی اٹھانے کے بجائے خود کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہم دوسروں سے ایمانداری، دیانت اور اخلاقیات کی توقع کرتے ہیں، مگر خود ان اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔ وکٹر ہیوگو نے کہا تھا، "دنیا میں سب سے بڑی جدوجہد اپنی ذات کی اصلاح ہے"۔

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں خوشحال ہوں، ہمارا ملک ترقی کرے اور ہم ایک کامیاب اور مطمئن زندگی گزاریں۔ لیکن اگر ہم اپنے اعمال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم خود اپنی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک ہم دوسروں کی غلطیوں پر انگلیاں اٹھاتے رہیں گے اور خود پر کوئی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے، تب تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔

اصل کامیابی وہی ہے جو اندرونی سکون اور بیرونی ترقی دونوں فراہم کرے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی توانائیوں کو مثبت سرگرمیوں میں لگائیں، دوسروں کی رائے کی قید سے نکلیں اور اپنی ذات سے شروعات کریں۔ یہی وہ اصول ہیں جو ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کامیابی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed