Munir Ahmed Firdous, Ilmi o Fikri Mukalama
منیر احمد فردوس، علمی و فکری مکالمہ

یہ 14 فروری کا دن تھا، یومِ محبت، جب میری منیر احمد فردوس سے پہلی ملاقات ہوئی انہی دنوں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "سناٹوں کا شہر" منظرِ عام پر آچکا تھا اور یوں ہماری ملاقاتوں اور تعلق کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت میں بھی اردو ادب (بی ایس اُردو) کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، جبکہ منیر احمد فردوس عدالت سے وابستہ تھے۔ ان کے دفتر میں میری حاضری معمول کی بات تھی، جہاں مختلف ادبی، سماجی اور فکری موضوعات پر طویل گفتگو ہوتی۔
اور پھر میں نے ریڈیو پر بزمِ تاثیر نامی پروگرام شروع جس کی ابتدائی منیر احمد فردوس کی نظم "ہم کیوں لکھتے ہیں" سے شروع ہوتا تھا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ، میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور اب ہماری ملاقاتیں کم کم ہونے لگی۔ آج کئی مہینوں کے بعد ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ہم دو گھنٹے تک ادب، الفاظ کی معنویت، سماجی رویوں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔
منیر احمد فردوس کی پہچان محض ایک ادیب کی نہیں، بلکہ وہ ایک نظریاتی اور فکری شخصیت کے حامل بھی ہے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز نثری نظموں سے ہوا اور ان کی پہلی کتاب زندگی چہرہ مانگتی ہے اسی صنف میں ایک منفرد اضافہ تھی۔ اس کے بعد ان کا پہلا افسانوی مجموعہ سناٹوں کا شہر منظرِ عام پر آیا، جو ان کی کہانی نویسی کی گہرائی اور سماجی بصیرت کا عکاس تھا۔
ان کی دیگر اہم تصانیف میں کینوس پر چھینٹے اور یہ کہانی پڑھنا نہ منع ہے شامل ہیں، جو ادب میں ان کے تجرباتی اور منفرد اسلوب کی مثالیں ہیں۔ ان کی تحریریں محض کہانیاں نہیں، بلکہ زندگی کے گہرے فلسفے، انسانی نفسیات اور سماجی حقائق کی پرتیں کھولتی ہیں۔
منیر احمد فردوس محض ایک ادیب نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک نظریہ ہیں۔ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اچھا انسان ہے، تو وہی ایک اچھا ادیب اور بہترین نظریات کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔ منیر احمد فردوس اس نظریے کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
ہماری آج کی ملاقات میں کئی موضوعات زیرِ بحث آئے، جن میں سماجی رویے، جدید دور میں بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ اور زندگی کے حقیقی اصول شامل تھے۔ آج کا دور اضطراب، بےچینی اور انزائٹی کا ہے اور ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہے۔
منیر احمد فردوس کا کہنا تھا کہ "آج کے دور میں جتنا ممکن ہو، زیادہ ہوشیار اور چالاک بننے سے بہتر ہے کہ آدمی بعض اوقات نادان دکھائی دے، بےفکری سے بات کرے اور زندگی کو ہلکا لے۔ ضرورت سے زیادہ فکریں پال لینا ہی دراصل ہمارے مسائل کی جڑ ہے"۔
یہ ایک دلچسپ اور غیر روایتی نظریہ تھا، لیکن غور کیا جائے تو اس میں حقیقت کی بڑی گہرائی ہے۔ آج کے انسان نے ہر وقت چوکنا اور تیز طرار رہنے کی جو عادت بنا لی ہے، اس نے اس کی فطری خوشیوں کو ماند کر دیا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جس پر ہم نے گفتگو کی، وہ یہ تھا کہ والدین کو اپنے بچوں کو خوش رہنے کا فن سکھانے کی ضرورت ہے۔ منیر احمد فردوس کے مطابق "خوش رہنا ایک آرٹ ہے اور اگر ہم اپنے بچوں کو یہ ہنر سکھا سکیں تو وہ زندگی میں کامیاب اور مطمئن رہیں گے۔ زیادہ تر والدین صرف اپنے بچوں کے مالی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، جبکہ خوش رہنے کی صلاحیت ان کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہو سکتی ہے"۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم میں سے اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے جائیدادیں، بینک بیلنس اور گاڑیاں چھوڑنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، مگر انہیں یہ نہیں سکھاتے کہ خوش کیسے رہا جاتا ہے۔ اگر آس پاس نظر دوڑائیں، تو کتنے ہی افراد ایسے نظر آئیں گے جن کے آبا و اجداد نے ان کے لیے بے پناہ دولت چھوڑی، مگر وہ پھر بھی پریشان حال زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ انہیں خوش رہنے کی عادت نہیں سکھائی گئی تھی۔
انسان ایک سماجی حیوان ہے، مگر جدید طرزِ زندگی میں ہم اپنی فطری زندگی سے کٹتے جا رہے ہیں۔ منیر احمد فردوس نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "ہم بہترین اور مثالی انسان بننے کے چکر میں اپنے قریبی رشتوں، محبتوں اور خلوص کو ختم کرتے جا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ معاشرے میں ذہنی بیماریوں اور بےحسی میں اضافہ ہو رہا ہے"۔
یہ ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ آج لوگ اپنے خونی رشتوں سے زیادہ، سوشل میڈیا پر بننے والے عارضی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ خاندان اور دوستوں سے فاصلہ بڑھانے کے سبب، ہم اپنی ذہنی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خوشحال ہو، تو اس کے لیے ہمیں رشتوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ہوگا۔
منیر احمد فردوس کا کہنا تھا کہ ہماری ذہنی کیفیت دراصل ہمارے دماغ کے کیمیکلز پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ہم خوشی کے ہارمونز (dopamine, serotonin) کو فعال نہ رکھیں، تو ہم مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے بچوں، اپنے ماحول اور اپنے سماجی دائرے سے جڑے رہیں۔
"خوشی کا تعلق اس بات سے نہیں کہ ہمارے پاس کتنا پیسہ ہے، بلکہ اس سے ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کس طرح گزارتے ہیں۔ اگر ہم روزمرہ کے لمحات کو خوشگوار بنانے میں کامیاب ہو گئے، تو ہم حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں"۔
یہ ملاقات ایک فکری تجربہ تھی۔ منیر احمد فردوس جیسے دانشوروں سے گفتگو ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی سادگی، محبت اور خلوص میں ہے۔ آج کے معاشرے میں جہاں ہر شخص زیادہ کامیاب اور زیادہ ذہین دکھائی دینے کی دوڑ میں ہے، ہمیں سادگی، تعلقات کی گہرائی اور خوش رہنے کی عادت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
یہ گفتگو میرے لیے محض ایک ملاقات نہیں، بلکہ زندگی کی ایک نئی حکمت تھی۔ جب میں ان کے دفتر سے نکلا، تو میرے ذہن میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا: "زندگی کی اصل کامیابی دولت اور شہرت نہیں، بلکہ وہ لمحے ہیں جو ہم اپنوں کے ساتھ خوشی سے گزار سکیں"۔

