Mazaq, Prank Aur Samaji Bimariyan
مذاق، پرینک اور سماجی بیماریاں

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں برائیاں نہ صرف بڑھتی جا رہی ہیں بلکہ ان کے نام بھی خوشنما بنا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے جھوٹ کو مذاق، دھوکے کو پرینک اور چغلی کو ہنر کا نام دے دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب رویے ہماری معاشرتی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے آئیے جھوٹ کو دیکھتے ہیں۔ آج اگر کوئی جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا جائے تو فوراً کہہ دیتا ہے: "ارے بھائی! میں تو مذاق کر رہا تھا"۔ یہ "مذاق" کا نیا مطلب ہے۔ کیا واقعی مذاق یہ ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات کے ساتھ کھیلیں؟ کیا مذاق کا مقصد دوسروں کو شرمندہ کرنا یا دکھ دینا ہونا چاہیے؟ میرے نزدیک مذاق وہی ہے جو کسی کے دل کو خوش کرے، نہ کہ تکلیف پہنچائے۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ لوگوں نے جھوٹ کو بھی ہنسی مذاق کے لبادے میں چھپا دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور فیشن "پرینک" کے نام پر فروغ پا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ کسی ہوٹل میں بیٹھے ہیں اور کوئی شخص آ کر آپ کو عجیب و غریب حرکتوں سے پریشان کرنے لگتا ہے۔ جب آپ کا صبر جواب دینے لگے اور آپ غصے میں آ کر اس کا گریبان پکڑنے کو ہوں تو اچانک وہ ہنس کر کہتا ہے: "اوہ بھائی! یہ تو پرینک تھا، دیکھیں کیمرہ وہاں لگا ہے"۔ یوں آپ بھی شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ شاید مجھے برداشت کر لینا چاہیے تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پرینک کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو ذہنی اذیت دیں، اس کا وقت ضائع کریں یا اسے طیش دلائیں؟ اصل پرینک اگر کوئی ہے تو وہ ہنسی خوشی میں ہونا چاہیے، نہ کہ کسی کی تذلیل میں۔
اب ذرا دفتروں کا حال دیکھیے۔ وہاں ایک الگ ہی دنیا بستی ہے۔ کچھ لوگ محنت کرنے کی بجائے چاپلوسی اور خوشامد کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے افسران کو خوش رکھنے کے لیے دوسروں کی باتیں پہنچاتے ہیں، یعنی چغلی کو اپنی کارکردگی بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ مجلس میں کی گئی باتیں امانت ہوتی ہیں۔ مجلس کے آداب یہ ہیں کہ وہاں کہی گئی باتوں کو باہر نہ نکالا جائے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ اصول پامال ہو چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کام کرنے والے پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں اور چاپلوس لوگ بظاہر کامیاب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مقام کبھی چغلی اور خوشامد سے نہیں ملتا، بلکہ یہ صرف اور صرف محنت اور خلوص سے حاصل ہوتا ہے۔
یہی رویے گھروں کے اندر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم دفتر کی باتیں گھروں میں لے آتے ہیں اور اپنی بیوی یا بچوں کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں۔ اکثر خواتین اس کے نتیجے میں خود کو حقیر اور کمزور محسوس کرنے لگتی ہیں کہ شاید وہ اپنے شوہر کا بوجھ کم نہیں کر سکتیں۔ اس سے گھریلو ماحول خراب ہوتا ہے اور اعتماد کی فضا متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح گھروں کی باتیں دفتر یا دوستوں میں بیان کرنا بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔ یوں ایک غلط سلسلہ جنم لیتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان اور گفتگو کے اثرات کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم سوچے سمجھے بغیر بولتے ہیں، دوسروں کی عزت و وقار کا خیال کیے بغیر مزاح کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی برائیاں آگے بڑھاتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم سنجیدگی اور دیانت داری سے اپنے کام پر توجہ دیں، تو نہ صرف ہماری عزت بڑھے گی بلکہ ہمارے مقام میں بھی اضافہ ہوگا۔
یہ رویے صرف بڑوں تک محدود نہیں رہتے، بلکہ بچے بھی انہیں اپناتے ہیں۔ اگر والدین مجلس کے بھید دوسروں تک پہنچاتے ہیں یا جھوٹ کو مذاق بنا کر پیش کرتے ہیں تو بچے بھی انہی عادات کو اپنانے لگتے ہیں۔ پھر وہ اسکول میں یا رشتہ داروں کے گھروں میں باتیں افشا کرنے لگتے ہیں۔ اس سے نقصان والدین ہی کا ہوتا ہے، کیونکہ بچوں کی تربیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے ایسا معاشرہ چھوڑنا چاہتے ہیں جہاں سچائی مذاق، دیانت داری کمزوری اور چغلی کامیابی سمجھی جاتی ہو؟ اگر نہیں، تو پھر ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں سچ بولنے، دوسروں کی عزت کرنے اور محنت کو اپنا شعار بنانے کی ضرورت ہے۔ مذاق کو مذاق کی حد تک رکھیں، پرینک کو تذلیل کے بجائے خوشی کا ذریعہ بنائیں اور مجلس کی باتوں کو امانت سمجھیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے کو درست سمت میں لے جا سکتے ہیں۔

