Machli Nahi, Machli Pakarne Wala Kanta
مچھلی نہیں، مچھلی پکڑنے والا کانٹا

ہمارے معاشرے میں بھیک مانگنا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں یہ رجحان اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ سڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں ہر طرف ہاتھ پھیلائے بھکاری نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ واقعی مستحق ہوتے ہیں، مگر ایک بڑی تعداد پیشہ ور بھکاریوں پر مشتمل ہوتی ہے جو لوگوں کے جذبات سے کھیل کر روزانہ ہزاروں روپے بٹورتی ہے۔
اس کے برعکس، کچھ بچے اور خواتین محنت و مشقت کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک معصوم مگر غیرت مند بچے سے میری ملاقات ایک موڑ پر ہوئی، جو پاپڑ بیچ رہا تھا۔ میں نے اس سے پاپڑ خریدے اور پیسے دیتے وقت اس نے التجا کی:
"انکل، 100 روپے دے دیں، میرے ابو بیمار ہیں"۔
یہ جملہ سن کر دل کو شدید تکلیف پہنچی۔ وہ بچہ محنت کر رہا تھا، لیکن حالات کی سختیوں نے اسے مانگنے پر مجبور کر دیا۔
کچھ دن بعد، بازار میں ایک اور منظر دیکھا۔ ایک ننھی بچی اپنے سے چھوٹی بہن کے ساتھ پین بیچ رہی تھی۔ جب میں نے اس سے تمام پین خریدنے کی پیشکش کی، تو اس نے صاف انکار کر دیا:
"انکل، ہم نے اور لوگوں پر بھی بیچنے ہیں"۔
یہ سن کر خوشی ہوئی کہ وہ صرف محنت پر یقین رکھتی تھی، نہ کہ کسی کے سہارے پر۔ اس بچی نے ہمیں کاروباری اصول اور خودداری کا سبق دے دیا۔
اگر غور کریں تو ہمیں ہر روز ایسے بچے نظر آتے ہیں جو چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں، لیکن ہمارا رویہ ان کے ساتھ عمومی طور پر سرد ہوتا ہے۔ اکثر لوگ انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ چند سکے دے کر ان کی محنت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں چاہیے کہ ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں، ان کی محنت کی قدر کریں اور ان سے سامان خریدیں، خواہ ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو۔
ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ان بچوں سے ان کی اشیاء زیادہ قیمت پر خریدیں، مگر انہیں کہیں کہ وہ کبھی کسی سے بھیک نہ مانگیں۔ اگر ہم روزانہ کچھ بھکاریوں کو پیسے دینے کے بجائے کسی ایسے بچے کی مدد کریں جو محنت کر رہا ہو، تو ایک مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔
یہ بات عام ہے کہ اگر کسی کو روز مچھلی دی جائے تو وہ ہمیشہ دوسروں کا محتاج رہے گا، لیکن اگر اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دیا جائے تو وہ خود کفیل بن سکتا ہے۔ یہی اصول بھیک اور محنت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔
حکومت کی طرف سے مختلف فلاحی منصوبے جاری کیے جاتے ہیں، جن میں لوگوں کو مالی امداد دی جاتی ہے۔ اگر یہی رقم محنت کش افراد کو کاروبار کی شکل میں دی جائے اور اس پر نگرانی رکھی جائے تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی کو روزانہ کچھ رقم دینے کے بجائے، اگر اسے چھوٹا کاروبار کرنے کے قابل بنا دیا جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے خودمختار ہو سکتا ہے۔
رمضان کے مہینے میں ایک عجیب رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ مخصوص مقامات پر اچھی پوشاک میں ملبوس خواتین بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ خواتین پورے سال کہیں نظر نہیں آتیں، لیکن رمضان میں اچانک ظاہر ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے کئی باقاعدہ گروہوں کا حصہ ہوتی ہیں، جو اس مقدس مہینے میں لوگوں کے جذبات کو کیش کروا کر ہزاروں روپے کماتے ہیں۔
یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھیک مانگنا ایک کاروبار بن چکا ہے۔ اس کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ ضرورت مندوں کو ہنر سکھایا جائے اور انہیں کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں۔
اگر ہم واقعی اپنے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بھکاریوں کو پیسے دینے کے بجائے، ان افراد کی مدد کریں جو محنت کر رہے ہیں۔ محنتی بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی اشیاء خریدیں۔ زیادہ قیمت پر خریداری کریں، تاکہ ان کی مالی مدد ہوسکے۔ حکومتی سطح پر ایسے منصوبے متعارف کرائے جائیں، جو ضرورت مند افراد کو روزگار فراہم کریں۔ مساجد اور دیگر فلاحی ادارے بھیک کے رجحان کے خلاف آگاہی مہم چلائیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بھیک مانگنے کی لعنت معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم محنت کو فروغ دیں اور محنتی افراد کی مدد کریں، تو ایک مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی کو چند روپے دے دینا وقتی مدد تو ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم انہیں کاروبار کے قابل بنا دیں تو وہ ہمیشہ کے لیے خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم صرف خیرات دینے کے بجائے، دوسروں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں۔ ہمیں خود بھی اس تبدیلی کا حصہ بننا ہوگا، تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک بہتر اور خوددار معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

