Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Insani Samaj Ki Sab Se Nazuk Quwat

Insani Samaj Ki Sab Se Nazuk Quwat

انسانی سماج کی سب سے نازک قوت

الفاظ انسان کے احساسات، جذبات اور خیالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ انہیں انسانی سماج کی سب سے طاقتور قوت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ الفاظ کسی کے دل میں محبت کے دیے جلا سکتے ہیں اور کسی کے دل کو زخمی بھی کر سکتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے زبان کے استعمال میں بے حد احتیاط برتنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ انسان کے کردار اور اخلاق کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، آج ہم اسی زبان کو سب سے بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بات حیران کن ہے کہ جس عضو کے بارے میں سب سے زیادہ احتیاط کی ہدایت دی گئی، اسی کا ہم سب سے زیادہ غلط استعمال کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔ (صحیح بخاری)

اسی بات کو ایک اور انداز میں ایک فلسفی نے یوں بیان کیا: "بولنے سے پہلے تین کسوٹیوں پر پرکھو: کیا یہ سچ ہے؟ کیا یہ ضروری ہے؟ اور کیا یہ مہربان ہے؟"

الفاظ کا چناؤ اور لب و لہجہ کسی بھی گفتگو کی تاثیر کو بڑھا یا گھٹا سکتا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اکثر الفاظ کی شدت، ان کے اثرات اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جب ایک انسان غصے میں یا جذباتی حالت میں بولتا ہے، تو وہ اکثر ایسا کچھ کہہ جاتا ہے جو دوسرے کے دل کو چھلنی کر دیتا ہے۔ بعد میں اگر وہ لاکھ بار معذرت کرے، تو بھی اس زبان کے زخم آسانی سے نہیں بھرتے۔

معروف فلسفی کانٹ (Kant) نے کہا تھا: "الفاظ نہ صرف خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ یہ انسان کے کردار اور عزائم کی بھی تصویر ہوتے ہیں"۔

ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ ایک کسان بھی وہاں آتا جاتا تھا اور وہ شیر سے مانوس ہو چکا تھا۔ لیکن ایک دن جب کسان بیمار ہوا تو شیر نے اس سے ہمدردی جتانے کے لیے اپنا جسم اس سے ملایا۔ بیمار کسان کو اس وقت شیر کے جسم کی بدبو محسوس ہوئی اور وہ فوراً غصے میں بولا: "پرے ہٹ! تیرے جسم سے بدبو آ رہی ہے"۔

شیر کے دل پر ان الفاظ نے چوٹ کی طرح اثر کیا۔ وہ خاموشی سے واپس جنگل چلا گیا، لیکن یہ جملہ اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا۔ کچھ عرصے بعد وہ کسان صحت مند ہوگیا اور جب وہ دوبارہ جنگل میں آیا تو شیر نے اسے خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ مگر پھر شیر نے اسے خنجر نکالنے کا کہا اور اصرار کیا کہ وہ اسے زخمی کرے۔ کسان نے انکار کیا، مگر شیر کے غصے کے باعث اسے مجبوراً خنجر سے شیر کو زخمی کرنا پڑا۔ شیر نے درد سے تڑپ کر کہا: "یہ زخم تو بھر جائے گا، مگر تمہارے الفاظ کا دیا ہوا زخم کبھی نہیں بھر سکتا"۔

زخم جسم پر لگے ہوں تو وقت کے ساتھ مندمل ہو جاتے ہیں، مگر زبان کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔

جدید نفسیات میں اس بات پر کافی تحقیق ہو چکی ہے کہ الفاظ انسان کے ذہن اور جذبات پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ الفاظ انسان کے اندر خوشی، غم، خوف، محبت، نفرت اور خود اعتمادی جیسے جذبات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ انسانی گفتگو میں الفاظ صرف 7% اثر رکھتے ہیں، جبکہ 38% اثر لہجے کا اور 55% اثر چہرے کے تاثرات کا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ الفاظ کم اہم ہیں، بلکہ اگر الفاظ زہر بھرے ہوں تو ان کا اثر لہجے اور چہرے کے تاثرات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں صرف زبان کی سختی نے جنگیں برپا کروا دیں اور کہیں صرف نرم الفاظ نے دشمنوں کو بھی دوست بنا دیا۔

1۔ حجاج بن یوسف اور سعید بن جبیر

تاریخ میں حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم کی مثالیں مشہور ہیں، لیکن جب سعید بن جبیر کو اس کے دربار میں پیش کیا گیا، تو ان کے الفاظ کی مضبوطی نے ظالم کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ سعید بن جبیر کے پُرعزم الفاظ آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں: "میرا پروردگار میرے اور تیرے درمیان سب سے بڑا منصف ہے"۔

ان کے الفاظ نے حجاج کو غصے میں مبتلا کر دیا، لیکن بعد میں وہ ان الفاظ کے اثر سے بے سکون ہوگیا اور چند دنوں میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔

2۔ حضرت علیؓ کا قول: "انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے"۔

انسان کی اصل پہچان اس کے الفاظ اور لب و لہجے سے ہوتی ہے، نہ کہ اس کی شکل و صورت یا لباس سے۔

اگر ہم اپنی زبان کے استعمال میں احتیاط برتنا چاہتے ہیں تو درج ذیل نکات پر عمل کر سکتے ہیں:

1۔ سوچ کر بولیں: کوئی بھی جملہ ادا کرنے سے پہلے سوچیں کہ اس کا اثر دوسروں پر کیا ہوگا۔

2۔ مہربانی اور نرمی اپنائیں: نرم الفاظ نہ صرف دوسروں کے دل جیت لیتے ہیں بلکہ خود انسان کے اندر بھی سکون پیدا کرتے ہیں۔

3۔ غصے میں خاموش رہیں: غصے کی حالت میں کہے گئے الفاظ اکثر ندامت کا باعث بنتے ہیں، اس لیے غصے میں خاموشی بہترین حکمت عملی ہے۔

4۔ معذرت قبول کریں: اگر کوئی انسان ماضی میں کہے گئے الفاظ پر معذرت کرے تو اسے درگزر کرنا سیکھیں۔

5۔ مثبت الفاظ استعمال کریں: مثبت جملے اور حوصلہ افزا الفاظ دوسروں کی زندگی میں روشنی بھر سکتے ہیں۔

زبان وہ ہتھیار ہے جو یا تو دلوں کو جوڑ سکتا ہے یا ہمیشہ کے لیے توڑ سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کا استعمال نرمی، محبت اور حکمت کے ساتھ کریں تاکہ ہماری باتوں سے کسی کا دل نہ دکھے بلکہ ہم دوسروں کے لیے خوشی، امن اور محبت کا باعث بنیں۔

جیسا کہ مولانا رومی نے کہا تھا: "زندگی کی عمارت محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور محبت کا سب سے بڑا ذریعہ میٹھے الفاظ ہیں"۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed