Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Hamesha Dair Kar Deta Hoon Main

Hamesha Dair Kar Deta Hoon Main

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

ڈاکٹر نذیر تبسم سے میری پہلی ملاقات 12 اگست 2025 کو اکیڈمی ادبیات پاکستان کے کل پاکستان مشاعرے میں ہوئی۔ مشاعرے کی شام یادگار تھی۔ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے شعرائے کرام، اہلِ قلم اور ادبی شخصیات وہاں موجود تھیں۔ اسی ہجومِ شوق میں میری نظر ڈاکٹر نذیر تبسم پر پڑی۔ میں نے ہمت کرکے اپنا تعارف کرایا اور ان سے کہا کہ میرا ایم فل کا تحقیقی مقالہ خیبر پختونخوا کی جدید نظم پر ہے اور میں ان کی نظم کو بھی اس میں شامل کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت شفقت اور اپنائیت سے میری بات سنی۔ گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو ایک استاد، محقق اور شاعر کی پہچان ہے۔

چونکہ مشاعرے میں نامور شخصیات کا ہجوم تھا، لوگ مسلسل ان سے ملنے کے لیے آ رہے تھے۔ میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے بڑی محبت سے کہا: "مجھے فوراً میسج کر دینا"۔ اور ساتھ ہی اپنا نمبر بھی عنایت کیا۔ یہ ان کی شفقت اور بڑائی کا انداز تھا کہ انہوں نے ایک نوآموز محقق کو بھی اپنی توجہ کے قابل سمجھا۔

14 اگست کو جب میں اسلام آباد سے واپس آیا تو زندگی کے ہنگاموں نے مجھے اس طرح گھیر لیا کہ وہ وعدہ وفا نہ کر سکا۔ گھر کے مصروف لمحات، کالج کی تدریسی ذمہ داریاں اور ریڈیو کے پروگراموں کی تیاری نے ذہن و دل کو ایسا جکڑ لیا کہ میں وہ مختصر سا میسج بھیجنے میں ناکام رہا۔ وقت گزرتا گیا اور میں سوچتا رہا کہ ابھی تو بہت موقع ہے، کبھی بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی ہمیشہ موقع نہیں دیتی، کبھی کبھار ایک لمحے کی تاخیر بھی زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔

کچھ روز پہلے علم ہوا کہ پشاور کلب میں ایک مشاعرہ ہونے جا رہا ہے اور ڈاکٹر نذیر تبسم بھی اس میں شریک ہوں گے۔ دل نے کہا کہ اب تو لازمی انہیں میسج کروں گا۔ چونکہ میں اس وقت میں سفر میں تھا، سوچا منزل پر پہنچ کر کر لوں گا۔ منزل تک پہنچتے پہنچتے روزمرہ کے مسائل اور مصروفیات نے پھر ایسا گھیرا ڈالا کہ یہ ارادہ بھی محض خیال رہ گیا۔

اسی رات جب ریڈیو پروگرام مکمل کرکے میں گھر پہنچا اور فیس بک کھولی تو ایک خبر نے دل کو دہلا دیا۔ خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر نذیر تبسم اب ہم میں نہیں رہے۔ حرکتِ قلب بند ہونے سے وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ لمحہ بھر کے لیے یوں لگا جیسے کسی نے میرے وجود کی بنیادیں ہلا دی ہوں۔ دماغ سن ہوگیا اور دل بار بار کہنے لگا: ہائے میری سستی! ہائے میری کوتاہی!

یقیناً یہ میری بدقسمتی تھی کہ میں ایک چھوٹا سا میسج بھی نہ کر سکا۔ یہ پچھتاوا شاید عمر بھر میرا ساتھ دے گا۔ لیکن یہی وہ کیفیت ہے جو اکثر انسان کی زندگی میں آتی ہے۔ کتنے ہی رشتے، تعلقات اور ناطے ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم سوچتے رہتے ہیں کہ فلاں بات کرنی ہے، فلاں سے کام کرنا ہے، یا فلاں موضوع پر بات کرنی ہے۔ مگر ہم سب کل کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور جب وہ کل نہیں آتا تو ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

یہی احساس اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب وہ شخص دنیا سے رخصت ہو جائے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر ایک لمحہ پہلے قدم بڑھا لیتے، اگر ہم نے اپنی سستی کو شکست دے دی ہوتی تو شاید دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جاتا۔ مگر زندگی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ یہ کبھی کسی کے انتظار میں نہیں رُکتی۔

منیر نیازی نے کہا تھا:

"ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں"۔ 

آج یہ مصرعہ میری ذات پر من و عن صادق آتا ہے۔ میں نے بھی دیر کی اور یہ دیر ایک نہ ختم ہونے والا دکھ بن گئی۔

میرا ماننا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔ جو کام جس وقت کیا جا سکتا ہے، اُسے مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔ نیکی، معافی، محبت اور تعلقات کی تجدید کے کام کبھی بھی کل پر نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ کیونکہ کل کا کچھ پتا نہیں۔ لمحہ موجود ہی اصل دولت ہے۔ اگر ہم اسے ضائع کر دیں گے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ زندگی کی بے ثباتی ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ وقت کو غنیمت جانا جائے اور تعلقات میں تاخیر نہ کی جائے۔ ورنہ بعد میں صرف حسرت اور افسوس باقی رہ جاتا ہے۔

ڈاکٹر نذیر تبسم کی شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔ وہ نہ صرف ایک بڑے شاعر تھے بلکہ تدریس، تحقیق اور تنقید کے میدان میں بھی ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم اور ادب کے فروغ کے لیے وقف تھا۔ ایسے لوگ محض انسان نہیں بلکہ عہد ہوتے ہیں اور جب وہ رخصت ہوتے ہیں تو ایک خلا چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی پر نہیں ہو پاتا۔

ڈاکٹر نذیر تبسم کے اہلِ خانہ کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور خود ڈاکٹر صاحب کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کے علم و ادب کا فیض آنے والی نسلوں تک پہنچاتا رہے۔

یہ محض تعزیت نہیں بلکہ ایک نصیحت بھی ہے، کہ ہم سب کو اپنی زندگی میں موجود رشتوں، تعلقات اور خوابوں کو کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ کل کا وعدہ کسی کے پاس نہیں۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail