Hamare Khush Haal Naazir
ہمارے خوشحال ناظر

ادب کی محفلیں محض اشعار، قافیے اور ردیفوں کا کھیل نہیں ہوتیں، بلکہ یہ وہ بزم ہوتی ہے جہاں انسان کی شخصیت، اس کی فکر اور اس کی علمی توانائی آشکار ہوتی ہے۔ ادیب صرف لفظوں کا تاجر نہیں بلکہ احساسات کا معمار بھی ہوتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی ادبی فضا میں خوشحال ناظر صاحب کا نام اسی طرح جگمگاتا ہے جیسے صحرا کی رات میں چاندنی۔ ان کی شخصیت میں استاد کی شفقت، بڑے بھائی کی محبت اور دوست کی بےتکلفی یکجا ملتی ہے۔
مشاعرے اور ادبی محفلوں میں ان کا ذکر ہمیشہ احترام اور محبت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہمارے دوست قاضی جواد جمیل نے ایک بار ادب زار فورم کے مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے کہا: "اب میں اس شخصیت کو دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں جو نہ صرف ہماری ادبی سرگرمیوں بلکہ ہمارے اچھے اور برے دونوں کے بھی ذمہ دار ہیں"۔
یہ جملہ خوشحال ناظر کی شخصیت کی جامع تصویر ہے۔ وہ واقعی ایسے ادیب ہیں جو محض کتابوں تک محدود نہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی اپنے علم، رہنمائی اور رویے سے بہتر بناتے ہیں۔
خوشحال ناظر کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ ہمارے لیے استاد ہیں یا بڑے بھائی۔ ان کے رویے میں شفقت بھی ہے، محبت بھی اور وہ وقار بھی جو استاد کے مرتبے سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر محفل میں کوئی دلچسپ بات یا چٹکلہ سنانا ہو تو ہم بلا جھجک ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ذاتی پریشانی دل پر بوجھ ڈالے تو خوشحال ناظر وہی بڑے بھائی ہیں جو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں: "بیٹا، اللہ خیر کرے گا"۔
یہ ایک ایسا جملہ ہے جو دل کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیتا ہے اور مشکل گھڑی کو آسان بنا دیتا ہے۔
خوشحال ناظر کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو ادب کو محض تفریح یا مشغلہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے ذمہ داری جانتے ہیں۔ ان کی نظموں کا ایک مجموعہ "بجوکا" کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے ان کا اسلوب سادہ مگر دلکش ہے، جس میں جدید دور کے مسائل اور انسانی جذبات کی گہرائیاں سمٹ آتی ہیں۔ ان کی نظم "گھڑی ساز" زبان زدِ عام ہے۔
نظم: گھڑی ساز
آنکھوں پہ عدسہ لگا کر
گھڑی میں مچلتے
سبھی دائروں کو
بڑے غور سے دیکھتا جانچتا ہے
کہاں، کون سا
پیچ
ڈھیلا یا حد سے زیادہ کساہے
کہاں کون سی سوئی
اٹکی یا بھٹکی ہوئی ہے
یا
چابی سے جو منسلک ہے
گراری کے دندانے ٹوٹے ہوئے ہیں
کہاں کون سا نقص ہے یہ
گھڑی ساز سب جانتا ہے
گھڑی ساز!
میری گھڑی کی
ذرا جانچ کردو۔۔
یہ بگڑا ہوا وقت ہے
بس۔۔ اسے ٹھیک کر دو
اس کے ساتھ ہی انہوں نے "اردو نظم: ہیئت و تکنیک" کے حوالے سے ایک اہم کتاب مرتب کی ہے۔ یہ کتاب اس لیے بھی قیمتی ہے کہ اس میں اردو نظم پر مختلف اکابرین کے مضامین یکجا کیے گئے ہیں۔ ایک نقاد کے طور پر ان کی نظر باریک اور گہری ہے۔ وہ صرف شاعر نہیں بلکہ نقاد بھی ہیں اور یہی امتزاج ان کی شخصیت کو زیادہ مکمل اور متوازن بناتا ہے۔
خوشحال ناظر اس وقت ایک ناول پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ناول لکھنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے محض تخیل نہیں بلکہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات، معاشرتی رویوں کی سمجھ اور کرداروں کی نفسیات پر گرفت لازمی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب ان کا ناول منظر عام پر آئے گا تو قارئین اسی طرح اسے قبول کریں گے جیسے انہوں نے ان کی نظموں کو قبول کیا۔
خوشحال ناظر کی ایک اور خوبصورت بات ان کی کتابوں سے محبت ہے۔ ان کی لائبریری طلبہ اور قارئین کے لیے ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ ہم جب بھی وہاں پہنچتے ہیں تو وہ خندہ پیشانی سے نہ صرف ہمارا استقبال کرتے ہیں بلکہ اس موضوع پر مزید کتابیں بھی تجویز کرتے ہیں۔ یہ عمل ان کی علم دوستی اور فیاضی کی علامت ہے۔
کتابیں بانٹنے والے لوگ دراصل روشنی بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ خوشحال ناظر نے اپنی شخصیت کے اس پہلو سے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ علم کو قید نہیں کرنا چاہیے بلکہ دوسروں تک منتقل کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی ادبی خدمت ہے۔
خوشحال ناظر کی شخصیت کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ادیب ہونے کے ساتھ ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ ان کی محفل میں سنجیدگی اور شگفتگی کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ان کا رویہ یہ سبق دیتا ہے کہ ادب صرف کتابوں کا نام نہیں بلکہ کردار سازی اور اخلاقی تربیت کا نام بھی ہے۔
کل ان کا یومِ پیدائش تھا۔ اس موقع پر میں دعا گو ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے، ان کی کاوشوں کو دوام بخشے اور ان کی لائبریری کے دروازے اسی طرح ہمیشہ کھلے رہیں تاکہ آنے والے طلبہ اور قارئین ان کے علم و ادب سے فیض یاب ہوتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے خوشحال ناظر کو اسی طرح خوشحال رکھے، ان کی زندگی کو علم و ادب کی روشنی سے بھر دے اور ان کے قلم کو وہ قوت عطا کرے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکے۔

