Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Amli Tazad Aur Sehat Ki Barbadi

Amli Tazad Aur Sehat Ki Barbadi

عملی تضاد اور صحت کی بربادی

زندگی میں بعض تجربات نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ معاشرتی رویوں کے تضادات کو بھی بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ مجھے ایک صحت آگاہی سیمینار میں ہوا، جہاں صحت مند طرزِ زندگی کے حوالے سے بہترین معلومات فراہم کی گئیں۔ خاص طور پر جنک فوڈ کے نقصانات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جس سے معلوم ہوا کہ یہ نہ صرف معدے بلکہ جلد اور دیگر جسمانی نظاموں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ لیکن سیمینار کے اختتام پر پیش کیے جانے والے لنچ نے ان تمام گفتگوؤں کی قلعی کھول دی۔

سیمینار میں بتایا گیا کہ جنک فوڈ کا زیادہ استعمال موٹاپے، بلند فشار خون، ذیابیطس، ہاضمے کی خرابی اور جلد کے مسائل جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا کہ تلی ہوئی اشیاء، فاسٹ فوڈ اور مصنوعی مشروبات صحت کے لیے زہر کے مترادف ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہم سب ان باتوں سے بخوبی واقف ہیں، لیکن ان پر عمل کرنا شاید ہمارے لیے سب سے مشکل مرحلہ ہے۔

جنک فوڈ کا سب سے زیادہ اثر معدے پر پڑتا ہے۔ آج کے دور میں ہر دوسرا شخص بدہضمی، معدے کی جلن، گیس اور قبض جیسی بیماریوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی غیر صحت بخش خوراک ہے، جو ہمارے جسم کے اندرونی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق، صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اپنی خوراک میں سبزیوں، تازہ پھلوں اور متوازن غذا کو شامل کرنا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی ہی عادتوں کے غلام بن چکے ہیں۔

سیمینار میں موجود ماہرین صحت نے ایک طرف جنک فوڈ کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور دوسری طرف جب لنچ کا وقت آیا، تو برگر اور کولڈ ڈرنک سے سجے ہوئے بکسز ہمیں تھما دیئے۔ یہ منظر کسی مذاق سے کم نہ تھا۔ لمحہ بھر کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ جو باتیں ابھی ہم نے سنیں، وہ محض رسمی بیانات تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماہرین خود ان باتوں پر عمل نہیں کرتے، تو وہ دوسروں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟

یہ تضاد نہ صرف صحت کے شعبے میں، بلکہ ہمارے پورے معاشرتی ڈھانچے میں پایا جاتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک چیز کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن جب وہی چیز ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اسے قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بہتری کی کوششیں محض کاغذی کاروائیاں بن کر رہ جاتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں صحت کو بہتر بنانے کے لیے صرف آگاہی سیمینارز یا لیکچرز کافی نہیں ہیں، بلکہ ہمیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ڈاکٹرز، ماہرین غذائیت اور صحت کے علمبردار خود ہی اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل نہیں کرتے، تو عوام کو اس بارے میں سنجیدہ ہونے کی ترغیب کیسے ملے گی؟ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود سے آغاز کرنا ہوگا۔

کچھ عملی اقدامات جو ضروری ہیں:

1۔ ذاتی سطح پر عمل: اگر ہم کسی چیز کو نقصان دہ سمجھتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں خود اس سے بچنا ہوگا۔

2۔ آگاہی کے ساتھ عملی مثال: سیمینارز اور صحت آگاہی مہمات کے دوران ایسے کھانوں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جو نقصان دہ ہوں۔

3۔ حکومتی سطح پر اقدامات: جنک فوڈ پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے اور صحت مند خوراک کو فروغ دیا جائے۔

4۔ تعلیمی اداروں میں صحت مند خوراک کی فراہمی: اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صحت بخش کھانے کو فروغ دینا چاہیے۔

5۔ میڈیا کا کردار: میڈیا کو چاہیے کہ صحت بخش خوراک کے فوائد کو نمایاں کرے اور جنک فوڈ کے خلاف مہم چلائے۔

اگر ہم واقعی صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو صرف باتیں کرنے کے بجائے ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ قول و فعل کے تضاد نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اگر ہم نے اب بھی اپنے رویے نہ بدلے تو مستقبل میں صحت کے مسائل مزید شدت اختیار کر لیں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ صحت کی بہتری کسی معجزے سے ممکن نہیں، بلکہ ہمیں اپنی خوراک، طرزِ زندگی اور عادات میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ جب تک ہم خود اپنے طرزِ عمل کو درست نہیں کریں گے، تب تک ہماری صحت اور معاشرہ زوال پذیر رہے گا۔

Check Also

Khuda Hafiz Samoso

By Omair Mahmood