Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zubair Amini
  4. Israel Ko Tasleem Karne Ki Behas

Israel Ko Tasleem Karne Ki Behas

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث

پاکستان میں ہر کچھ عرصے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تسلیم نا کرنے کے حوالے سے بحث چھڑ جاتی ہے۔ یہ بحث اتفاقاً چھڑ جاتی ہے یا کسی طے شدہ منصوبےکے مطابق اس بحث کو چھیڑا جاتا ہے یہ بھی اک اہم سوال ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ پاکستانی پوائینٹ آف ویو سے انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے پھر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامیوں اور مخالفین طرفین کے دلائل بھی سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔

بابائے قوم بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح کا بڑا واضح اور غیر مبہم موئقف اسرائیل کے حوالے سے ان کے فرمودات کی صورت میں موجود ہے۔ اسرائیل جسے بابائے قوم کی طرف سے ناجائز ریاست اور امتِ مسلمہ کی پیٹھ میں گھونپا گیا چھرا قرار دیا جاچکا ہے اور اسرائیل کو تسلیم نا کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا انتہائی اہم اور لازمی حصہ ہے۔ پھر بھی کچھ عرصے کے بعد اس بحث کو چھیڑدیا جانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس بحث کو کیوں چھیڑا جاتا ہے؟

اس بحث کے چھڑ جانے کے اسباب کیا ہیں اور کون لوگ اس بحث کو زبانِ زد عام کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اس سلسلےمیں ریاستِ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئیے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان صاحب متعدد بار یہ بات کرچکے ہیں کہ ان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئیے بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا تھا لیکن کس کی طرف سے کس قسم کا اور کس لیول کا دباؤ تھا اس حوالے سے وہ کسی کا بھی نام لینے سے گریزاں ہیں۔ نام نا لینے کی یقینا متعدد وجوہات ہیں مگر اہلِ دانش و فکر احباب یقینا بہت سی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں اور باشعور لوگ بھی اشاروں کنایوں سے کی جانی والی باتوں کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حالیہ دنوں اسرائیل کا دورہ کرنے والے صحافی احمد قریشی نے جس قسم کے انکشافات کئیے ہیں وہ بھی یکسر نظر انداز نہیں کئیے جاسکتے۔ احمد قریشی کے مختلف انٹرویوز اور اس سلسلے میں ان کی تفصیلی گفتگو سننے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے اور نا کرنے کے حوالے سے بہت سی چیزیں سمجھنے اور کچھ نتائج نکالنا آسان ہوتا جارہا ہے۔ بقول احمد قریشی خاص طور پر 1998 میں ایٹمی دھماکوں سے لے کر آج کے دن تک پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کسی نا کسی سطح پر رابطے موجود ہیں۔ کس سطح پر رابطے ہیں براہ راست رابطے موجود ہیں یا کسی مشترکہ دوست ملک کے ذریعے اس حوالے سے احمد قریشی نے بات کو گول مول کردیا۔

2005 میں اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کے دور میں اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جب عمران خان صاحب کی حکومت آئی تو خاص طور پر جے یو آئی ایف کی طرف سے حکومتِ وقت پر یہودی ایجنٹی، اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے الزامات لگائے جاتے رہے۔ جس پر سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے اسرائیل کے حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں واضح موئقف دیتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح رح کے فرامین کا ذکر کیا۔

بقول عمران خان صاحب ان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ تھا انہوں نے تسلیم نا کرکے جرت اور عقل مندی کا مظاہرہ کیا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لئیے دفن ہوجاتی ویسے بھی ان پر یہودی ایجنٹی کا الزام لگانے والے ایسے موقع کی تلاش میں سرگرم رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نا کرنا بھی عمران خان کے جرائم میں شامل ہو جن کی پاداش میں انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ویسے بھی ملک کی کوئی بھی ایک سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسی لئیے ملک کی درجن سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو ملک میں حکومت سونپی گئی تاکہ یہ سب مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بوجھ اٹھا سکیں۔ کیونکہ جس طرح عمران خان کی حکومت پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا الزام تھا ایسے ہی پی ڈی ایم کی حکومت پر بھی یہ الزام لگ رہا ہے۔

پی ٹی آئی دورِ حکومت میں تو سربراہ پی ڈی ایم بڑی شدومد سے اس ایشو کو موضوع بحث بناتےتھے لیکن اب بلا کا سناٹا اور خاموشی ہے کیا اس لئیے کہ وہ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں یا وہ بھی شریکِ جرم ہیں۔ احمد قریشی کو پی ٹی وی کے پروگرام ریاست کی میزبانی کے لئیے فواد چوہدری لائےتھے مگر موجودہ دورِ حکومت میں احمد قریشی کو دورِہ اسرائیل کے بعد عوامی دباؤ اور تنقید کے بعد پی ٹی وی سے فارغ تو کردیا لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ ذاتی طور پر گے تھے۔ کہیں کل کو یہ بات سامنے تو نہیں آئے گی جیسے عمران خان کہتے نظر آتے ہیں کہ میں نے روس کا دورہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور متفقہ فیصلے کے بعد کیا تھا۔ کہیں کل کو احمد قریشی کا دورہ اسرائیل بھی اس نوعیت کا نا نکل آئے۔

پاکستانی نژاد جن امریکن شہریوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس پر دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ امریکی پاسپورٹ پر امریکی شہری ہونے کی حثیت سے اسرائیل گے تھے لہذا چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دفاع کرنے والے وضاحت کررہے ہیں تو پھر اسرائیلی صدر کی جانب سے پاکستان کا خصوصی طور پر تذکرہ کرنے کا کیا مقصد تھا۔

دوسری بات کل کو حسن نواز اور حسین نواز شریف بھی اگر اسرائیل کا دورہ کرتے ہیں تو آپ کی دلیل کے مطابق وہ بھی درست ہوگا کیونکہ وہ بھی برٹش سٹیزن ہیں۔ اس لئیے لیگی تجزیہ نگاروں سے گزارش ہے کہ بونگیاں مارنے کے بجائے اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ احمد قریشی کے بقول مستقبل میں پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے حوالے سے موجود عبارت بھی ختم کردی جائے گی۔ میرے خیال کے مطابق ہر دور میں پاکستان اور اسرائیل کے رابطے موجود رہے ہیں احمد قریشی کی گفتگو اور انکشافات کے مطابق۔

چاہے حکومت جس مرضی سیاسی جماعت کی ہو اس جرم میں سب برابر کے شریک محسوس ہوتے ہیں۔ باقی ہر تھوڑے عرصے کے بعد اس بحث کو چھیڑنے کا مقصد رائے عامہ کو ہموار کرنا اور عوامی ردِعمل کا جائزہ لیتے رہنا ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک پاکستانی عوام کو اسرائیل کو تسلیم نا کرنے کے دلائل ہی دئیے اور سمجھائے جاتے رہے ہیں اس لئیے اب اس پر یوٹرن لینا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئیے ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ کاروائی ڈالنے کے لئیے رائے عامہ ہموار کرکے مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔

اگر ریاست اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے مفاد کے پیشِ نظر یا کسی اور مجبوری کے تحت اسرائیل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرچکے ہیں تو پھر الزامات اور تردیدوں والی آنکھ مچولی بند کی جائے اور حقائق قوم کے سامنے لاکر پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیا جانا چاہئیے۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani