Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yousaf
  4. Kurram Aag Mein Jal Raha Hai

Kurram Aag Mein Jal Raha Hai

کرم آگ میں جل رہا ہے

کوہاٹ ڈویژن کا ضلع کرم کئی دہائیوں سے ہر صبح خون سے غسل کرکے بیدار ہوتا ہے۔ نفرت، حسد، رنجش اور انتقام اس کی فصلی پیداوار ہے۔ اس کی زمینیں کبھی انتہائی لذیذ خوشبودار چاول، گندم اور خشک میوہ جات اگاتی تھی مگر اب انتقامی جذبات کی شاندار فصل اگاتی ہے۔ جس کے ہر پیڑ پہ لاش اگتی ہے۔ اس کی شاخوں پہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے سر لٹکے ہیں۔ پانی کی قلت کی وجہ سے انسانی خون سے اس فصل کو سیراب کیا جاتا ہے۔ اس کی زمین صدیوں سے انسانی خون کے پیاسی ہے۔ اس کی آٹھ لاکھ آبادی کی آنکھوں میں ہر وقت خون اترا رہتا ہے۔

3380 مربع کلومیٹر کی اس زمین کے نیچے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں بلکہ خون کی آبشاریں، جھرنے، ندیاں اور دریا بہتے ہیں۔ اس دھرتی کو پچھلے سو سال سے بارش کی ایک بوند تک نصیب نہیں ہوئی۔ ایسے لگتا ہے جیسے کرم کے آسمان کی آنکھ میں ناسور ہے۔ اس لیے وہ جب بھی برسا تو اس کی زخمی آنکھ سے لہو بہہ کر، کرم کے انسانوں، جانوروں اور فصلوں کی خونی بھوک کو اور بڑھا دیتا ہے۔ کرم کی زمین کو لہو کا اتنا چسکا لگا ہے کہ وہ اپنا ہر ناشتہ انسانی سوپ سے کرتی ہے۔ ہر لنچ میں انسانی کھوپڑیوں کے مغز اس کے دسترخوان کی زینت ہوتے ہیں اور اپنے ہر ڈنر میں وہ اپنے مالکوں اور سرپرستوں کی ہڈیاں تک چبا جاتی ہیں۔

جو بھی کرم کا باسی ہے۔ وہ بٹا ہوا ہے۔ ان کی جسم و روح میں بھی بٹوارا ہے۔ ہر ایک کا جسم ان کی روح سے خفا ہے اور ہر روح جسم سے نالاں ہے۔ یہاں کے لوگوں کا مذہب شیعہ اور سنی ہے۔ ہاں اسلام یہاں ایک اجنبی مذہب ہے۔ یہاں کے لوگ بنگش، توری اورکزئی، وزیر، میموزئی، مقبل، منگل اور ہزارہ قبائل میں بٹے ہیں۔ یہ بٹوارا 1947 سے بھی شدید تر ہے۔ یہاں انتقام کی آگ بچوں کو وراثت میں ملتی ہے۔ وہ ان چنگاریوں سے الاؤ بناتے ہیں اور پھر اسی آگ کے الاؤ میں اپنے بچوں کو بطورِ ایندھن جلا کر خوش ہوتے ہیں۔

کرم کے ساتھ افغانستان کے تین صوبے جڑے ہیں خوسٹ، پاکتیا اور ننگرہاریہ۔ یہ تینوں صوبے ٹی ٹی پی کا گڑھ ہیں۔ جو ان صوبوں میں اسلام کے سچے دعوے داروں کے زیر سایہ بیٹھ کر خونی آتش کو بھڑکاتے ہیں۔ 2008 میں کرم ٹی ٹی پی کے کنٹرول میں تھا۔ انہوں نے کرم کو سکون سے سونے نہ دیا۔ ہر دل کو دھڑکا سا لگا رہتا کہ پتہ نہیں کب کون ان سے بچھڑ جائے۔ کرم کو ان خونی باشندوں سے رہائی دلوانے کے لیے حکومت کو چار سال کا عرصہ لگا۔ اس دوران اپر کرم، لور کرم، سینٹرل کرم میں کامیاب آپریشن ہوئے۔ ان آپریشن کی وجہ سے ٹی ٹی پی بھاگ کر افغانستان میں پناہ گزین ہوگئی۔

کرم کئی عرصہ تک ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک اور القاعدہ کا مرکز بنا رہا۔ نفرت، انتقام اور فرقہ واریت کی لپیٹ میں مسجدیں اور سکول بھی نہ بچ سکے۔ صدہ کے ماتمی جلوس پر جب حملہ کیا گیا تو کرم کی مٹی نے انسانی خون کے پیالے بھر بھر کے پیے۔ 1971 میں جامع مسجد پارہ چنار کی تعمیر کے دوران خون سے مسجد کی بنیادوں کو بھرا گیا۔ 1977 میں جامع مسجد پارا چنار کے موذن پر جب قاتلا نہ حملہ ہوا تو گھر گھر سے بندوق اور گولی چلی۔ 1996 میں جب ہائی سکول کے ایک سنی طالب علم کو قتل کیا گیا تو ہر بچے کی کتابیں، پنسلیں، کلاشنکوف اور پسٹل بن گئیں۔ کتابوں کے حروف بم بن کر سکول پہ پھٹ پڑے۔ کرم کی کتابوں نے بھی انسانی خون کا ذائقہ چکھا۔ امن، ا محبت اور روشنی کا درس دینے والے کئی اساتذہ کرم کی وراثتی انتقامی آگ میں جل کر راکھ ہوئے۔

2001 میں کرم سے القاعدہ اور طالبان کا دھواں اٹھنا شروع ہوا۔ جب دھواں چھٹا تو کسی کا بھائی دھواں چاٹ گیا۔ تو کسی کی بہن کو نگل گیا اور کسی کا شیر خواہ بچہ پی گیا تو کسی خاندان کے سرپرست کا سر لے اڑا۔ 2007 میں تو قیامت نے کرم کوآ لیا۔ گاؤں کے گاؤں مل کر دوسرے گاؤں پہ حملہ کرتے۔ گھر، فصلیں سب ملیا میٹ کر دیے۔ گولیوں کی موسیقی کی دھڑ دھڑ دھڑ اتنی بلند آواز میں چلی کہ کرم کا کلیجہ پھٹ گیا۔ اس کے پہاڑ پتھر ہو گئے۔ ہر طرف خون، لاشیں، انسانوں کے ادھ کٹے جسم، ہڈیاں اور شیر خوار بچے سب فرقہ واریت کی نظر ہو گئے۔

اپریل 2007 میں جب ربیع الاول کے جلوس پر پتھراؤ ہوا تو وہ دیوانے جو حضرت محمد ﷺ کی آمد کا جشن منا رہے تھے۔ وہ دیوانے بم بن کر پتھراؤ کرنے والوں پہ گرے اور دیکھتے دیکھتے عاشقان رسول ﷺ اور عاشقان علیؓ و حسینؓ سب دست و گریباں ہو گئے۔ جب تک بہت ساروں کے سر نہیں کٹے تب تک عشاق کا جاہ و جلال کم نہ ہوا۔ اپنے ہی بھائی، باپ، دادا، چاچا کو مروا کر پھر سب اپنے اپنے گھروں میں اپنی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر مرنے والوں کا ماتم کرتے رہے۔

کرم کے شیعہ اور سنی سب اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ اپنے لالچ کو فرقہ واریت کا جام پلاتے ہیں پھر مستی میں آ کر اپنے بھائیوں کے گلے کاٹ کر ان کی گردنوں کے بہتے ہوئے لہو سے، پیالے بھر کر پیتے ہیں۔ معصوم لوگوں کا لہو بہا کر، کرم کی فصلِ گل کو آگ لگا کر، اہل تشیع نعرہ حیدری لگاتے ہیں اور اہل سنت نعرہ رسالت لگاتے ہیں۔ اب ان کے دماغوں کے شیشے کون صاف کرے۔ کون انہیں سمجھائے کہ تمہارے ان اعمال سے حضرت علی کے چہرے کی شکنیں بڑھ رہی ہیں اور دینِ اسلام کی فکر مندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انیسیویں صدی کے شروع میں کرم، افغانستان کے ماتحت تھا لیکن 1880 میں افغانستان برطانیہ کی جنگ کے بعد کرم، برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔ 1901 سے لے کر 2018 تک کرم کو کالے قانون سے چلایا گیا یعنی اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ نہ اپیل کر سکتا ہے نہ وکیل لے سکتا ہے اور نہ ہی اپنے حق میں کوئی دلیل دے سکتا ہے یہ کالا قانون ایف سی آر کہلاتا ہے اسی کالے قانون کے تحت بعض دفعہ کسی ایک شخص کی غلطی کی وجہ سے اس کے سارے خاندان کو یا پھر پورا گاؤں ہی اس کی سزا پاتا ہے۔ مئی 2018 میں کرم کو اس کالے قانون سے نجات ملی۔

کشمیر اور فلسطین میں غیر مسلم مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رہے ہیں اور کرم میں مسلمان خود دوسرے مسلمان کا سر اچھال کر کہتے ہیں نعرہ حیدری، نعرہ رسالت۔ خدارا رحم کھاؤ۔ کرم کو اس آگ سے نکالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ پھیلتے پھیلتے پورا ملک اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے کرم میں اسلحہ اور بارود کی فصل کاٹ کر، وہاں امن کی فصل اگاو۔ نہیں تو یہ اسلحہ، یہ بارود، پورا ملک اپنے نشانے پہ رکھ لے گا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan