Janti Daroghe Kamyab
جنتی دورغے کامیاب
اس دور میں مادہ پرستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ عبادات بھی مادی فوائد حاصل کرنے یا اپنی پی آر بنانے کیلئے کرتے ہیں۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں قابلِ مثال لوگ بہت کم ملتے ہیں اور خاص طور پر ایسے لوگ جو دین کی خدمت بے لوث کرنے کیلئے اپنی دنیا قربان کردیں۔
دین کے معاملے میں ہماری ترجیحات ہی بدلی ہوتی ہے ہم اپنا سب سے نکما بچہ دین کیلئے وقف کر دیتے ہیں جو کہیں بھی نہ چل رہا ہوں اس کو مدرسے میں ڈال دوں وہ بچہ پھر ایسا اہل حرم بنتا ہے جن کے بارے میں اقبال نےکہا تھا کہ حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے، میرے خیال سے لائق فائق عالمِ دین ہم افورڈ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ دین میں برصغیری روش یا پنجابی روش کا قائل نہیں ہوتا یعنی کہ صرف میرا فرقے یا میری جماعت کے علاوہ کوئی حق پر نہیں سب سے بہترین رائے ہمارے سلف صالحین کی ہے دیگرر ائے کو احترام دینا تو دورکی بات اس ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں کیونکہ وہ تو ہے ہی باطل اور اسے سننا ہی کفر ہے۔
ایسے ماحول میں پلا بڑھا میرے گاؤں کا ایک دوست علی حیدر جس نے ریاضی میں گرائجویشن کی اور تعلیمی کارکردگی بچپن سے ہی بہترین تھی اور دین طرف رجحان زیادہ تھا اور دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی چلا گیا اور جامعہ ابی بکر میں دینی تعلیم باقاعدہ طور پر حاصل کرنے لگ پڑا اور جب مطالعاتی اور تعلیمی دور سے گزرا تو پتا چلا کہ جن فقہی مسائل کو ہم کفر و اسلام کا مسلہ سمجھتے رہے وہ صرف اختلافِ رائے سے بڑھ کچھ نہیں تھے میں یہاں مدرسے کا تعارف کرواتا چلو جامعہ ابی بکر مدینہ یونیورسٹی مدینہ منورہ کا سلیبس پڑھاتا ہے جہاں پر تمام آئمہ اکرام رائے پڑھائی جاتی ہے اور دیگر مسالک کا احترام سکھائے جاتا نہ کہ ان کا رد۔
اب حیدر صاحب جب تعلیمی دور کے درمیان چھٹیوں میں گھر آتے تو وہ ڈسکس کرتے جو مسائل ہمیں بتائے جاتے وہ اصل مسائل ہے ہی نہیں اور ساتھ ساتھ اتحادِ امت پر زور دیتا اور دین کا بنیادی فلسفہ سمجھاتا یہ بات ہمیں تو بڑی اچھی طرح سمجھ آرہی تھی لیکن ہماری مسجد کے روائتی علماء کو اپنا مسلک خطرے میں دکھائی دینے لگا کیونکہ وہ دین کو بھی مسلک کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں انہیں دین سے زیادہ مسلک کی فکر ہوتی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ اپنے مسلک کے لوگوں اسی اثنا میں انہوں مسجد کی کمیٹی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا حیدر صاحب اب سے مسجد میں درس و تدریس نہیں کریں کیونکہ وہ نوجوانوں میں جن میں سے اکثر اس کے دوست اور شاگرد تھے ان کے ساتھ دینی بحث و مباحثہ کرتا رہتا تھا۔
اب مسجد کی کمیٹی نے اس کو مسجد میں آکر کہا کہ تم مسجد میں درس و تدریس نہیں کر سکتے اور ساتھ کہا کہ تم ابھی اٹھو اور مسجد سے سے نکلو اور مسجد سے نکال دیا، اور ان کا فیصلہ کافی تضحیک آمیز تھا جس پر کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اسے مسجد سے نہیں نکالا بلکہ صرف درس و تدریس پر پابندی لگائی ہے۔ اب کوئی دانش مند اس فیصلے یہی سمجھے گا کہ یہ صرف مسجد میں درس و تدریس پر ہی نہیں بلکہ مسجد میں آنے پر بھی پابندی ہے۔ مسجد کی انتظامیہ کسی پر بھی پابندی لگا سکتی ہے لیکن اس کا طریقہ کار درست ہونا چاہیے اور ہر شخص کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہیے۔
اب حیدر بھائی تقریبا ایک مہینے سے مسجد نہیں گئے کیونکہ سمجھتا ہے میری وجہ مسجد میں کوئی بدنظمی نہ پیدا ہو کیونکہ اس کو مسجد میں بیٹھنے سے بھی منع کردیا تھا اب ہماری مسجد کے جو جنتی دروغے ہیں وہ اپنے آپ کو بہت کامیاب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک قابل بندے کو مسجد کو آنے روک دیا اور اپنے مسلک کو محفوظ بنا لیا بھلا آج کے دور میں کسی کے فکر کی ترویج کو بھی کوئی روک سکتا ہے جہاں آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز دنیا بھر میں پہنچا سکتے ہیں!