Siasi Virsa Ya Mazi Ki Yaadgar?
سیاسی ورثہ یا ماضی کی یادگار؟

پنجاب حکومت نے تاریخی ورثے کے تحفظ اور بحالی کے لیے لاہور اتھارٹی فار ہیریٹیج ری وائیول کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، جس کے اسٹیئرنگ کمیٹی کے سرپرستِ اعلیٰ کے طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو نامزد کیا گیا ہے۔
لاہور میں کم از کم 115 عمارات تاریخی ورثہ قرار دی جا چکی ہیں، جن میں سے 75 نوآبادیاتی دور کی عمارات ہیں اور 48 عمارات کی بحالی کا کام جاری ہے۔
یہ سارا منصوبہ اپنی جگہ لیکن سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس اتھارٹی کا سرپرستِ اعلیٰ مقرر کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ نواز شریف، جو کبھی پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے، آج عملی سیاست میں مکمل طور پر غیر فعال نظر آتے ہیں۔ ان کا حالیہ کردار کسی، ریٹائرڈ سیاستدان سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہیں لاہور کی تاریخی عمارتوں کے تحفظ کا ذمہ دار بنانا ایک طرح سے ان پر ایک سیاسی طنز معلوم ہوتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کسی رہنما کی سیاسی ساکھ ختم ہو جاتی ہے تو اسے ایسے نمائشی عہدے دے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ سیاست سے مکمل علیحدہ کر دیا جائے اور ایسے باور کروایا جا سکے کہ اسکی اہمیت بس انہی تاریخی عمارتوں اور ورثوں کی طرح بن چکی ہے۔
میاں نواز شریف، جنہیں کبھی پاکستان کی سیاست کا مرکز سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی اتھارٹی کے سرپرست بنا دیے گئے ہیں جو ایک، ماضی کی یادگاروں کو محفوظ بنانے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا ایک سوچا سمجھا پیغام کہ وہ خود بھی اب ایک ماضی کی یادگار بن چکے ہیں؟
لاہور پہلے ہی والڈ سٹی اتھارٹی جیسی متحرک تنظیم رکھتا ہے جو تاریخی ورثے کی بحالی پر کام کر رہی ہے۔ ایسے میں ایک نئی اتھارٹی قائم کرنا اور اس کی سربراہی کے لیے میاں نواز شریف کو منتخب کرنا اس تاثر کو مزید تقویت دیتا ہے کہ یہ ایک، سیاسی جلاوطنی کی عملی مثال ہے۔ یہ ایک علامتی فیصلہ ہے کہ نواز شریف کا موجودہ سیاسی نظام میں کوئی فعال کردار باقی نہیں رہا اور انہیں ایک ایسے کردار میں ڈال دیا گیا ہے جہاں وہ، سیاسی عجائب گھر کا حصہ بن جائیں، جہاں لوگ انہیں ماضی کے ایک کردار کے طور پر دیکھیں، نہ کہ مستقبل کے کسی طاقتور لیڈر کے طور پر۔
یہ فیصلہ شاید نواز شریف کو یہ باور کرانے کے لیے کیا گیا ہو کہ ان کی سیاسی اہمیت اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ وہ کسی بڑے سیاسی کردار کے بجائے ایک ایسے تاریخی ورثے کی مانند ہیں جسے لوگ صرف دیکھنے اور ماضی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔

