Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Zara Nam Ho To

Zara Nam Ho To

ذرا نم ہو تو

سہ روزہ اوستہ محمد لٹریری فیسٹیول کی روداد جس میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت نے سب کو حیران کر دیا۔ گزشتہ روز تحریم حرف ادبی تنظیم کے زیر اہتمام گورنمنٹ ڈگری کالج اوستہ محمد(بلوچستان) میں سہ روزہ "اوستہ محمد لٹریری فیسٹیول" کے تحت محفل مشاعرہ، کتاب میلہ اور "صحافت اور سیاست کے تقاضے" کے موضوع پر مختلف نشست ہوئے۔

صحافت اور سیاست کے تقاضے کے عنوان سے صحافی نعیم بلوچ کی میزبانی میں ایک نشست انعقاد کی گی، جس میں بلوچستان کے بزرگ صحافی و ایڈیٹر سعید احمد نعمانی سابق صدر پریس کلب صحافی کالم نگار محمد وارث دیناری اور سینیئر صحافی چاکر خان دیناری شریک گفتگو ہوئے جن سے موضوع کی مناسبت سے سوالات کیے گئے جن کے انہوں نے جوابات دیئے۔ سعید احمد نعمانی نے کہا کہ ماضی میں صحافت کو ایک مقدس مشن سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کل صحافت کو تجارت سمجھا جاتا ہے محض آٹے میں نمک کے برابر بہت قلیل تعداد میں صحافی ہیں جو کہ صحافتی تقاضوں کے تحت اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

صحافت کے پیشے سے وابستہ اکثریت نے صحافتی تقاضوں کو نظرانداز کرکے قلم کی حرمت کو فراموش کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب نہ پہلے جیسے صحافی رہے ہیں اور نہ ہی بااصول سیاستان رہے ہیں۔ حاجی محمد وارث دیناری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج کے دور میں فقط چند ایک حقیقی صحافی ہیں جو اپنے شعبے سے مخلص ہیں اور صحافت کو عبادت سمجھتے ہیں اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں جن کے لئے ان کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اس وقت تو اکثریت ایسے دوستوں کی ہے جو صحافت کی ابجد اور اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں وہ صرف شہرت اور صرف پیسہ کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ایسے لوگ صحافی نہیں اتائی ہیں، جنہوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کر دیا ہے۔

اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جب بعض ادارے آپ کی خبر شائع کرنے یا نشر کرنے کے لئے ڈیمانڈ رکھیں تو حد ہے۔ چاکر خان دیناری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ صحافت اور سیاست دونوں شعبوں میں حقیقی لوگ برائےنام رہ گئے ہیں جس طرح صحافت کے شعبے میں غلط لوگوں کی اکثریت شامل ہو چکی ہے سیاست کے شعبے میں بھی ایسے لوگوں کی اکثریت ہے انہوں نے کہا کہ جب سیاستدانوں کے ہاتھ میں مائیک دے کر کرپشن و دیگر سماجی مسائل کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ خوف، لالچ اور مصلحت کا شکار ہو کر صحافی کے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہم صحیح جواب دیں گے تو معتبرین اور افسران وغیرہ ہم سے ناراض ہو جائیں گے۔

گوٹھ چوکی جمالی سے تعلق رکھنے والی نصیر آباد ڈویزن پہلی خاتون ناول نگار مہر النساء جمالی کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ان کی تصنیف "مہجور" کے بارے میں سوالات کیے گئے جس میں مہر النساء نے بتایا کہ میرا ناول ہمارے معاشرے میں عورت کو اس کی میراث/وراثت سے محروم رکھنے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے میرے خاندان کے افراد نے میرے ناول لکھنے کی مخالفت نہیں کی بلکہ میری بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی اس موقع پر سینیئر ٹیچر میڈم ام کلثوم سے تعلیم نسواں کے موضوع پر گفتگو کی گئی اور ان کی تعلیمی خدمات کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اس فیسٹیول میں نامور ادیب پروفیسر عابد میر اور مہردر پبلیکیشن کے تعاون سے گوادر کے متاثرین کی امداد کی غرض سے کتاب میلہ کا اہتمام کیا گیا۔

اوستہ محمد محمد فیسٹیول کے آخر میں محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت جیکب آباد کے نامور شاعر شبیر احمد موج نے کی جبکہ بیف کے سینیئر مینیجر عظیم انجم ہانبھی مہمان خصوصی اور پروفیسر محمد ایوب منصور اور قادر بخش خاکی اعزازی مہمان تھے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض پروفیسر صاحب خان جمالی نے سرانجام دیئے۔ مشاعرے میں اردو سندھی اور بلوچی زبان میں کلام پیش کیے گئے اوستہ محمد میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں پہلی بار کثیر تعداد میں مقامی خواتین شاعرات اور سامعین نے شرکت کی۔

مشاعرے میں جن شعراء اور شاعرات نے کلام پیش کیے ان میں شبیر احمد موج پروفیسر ایوب منصور عظیم انجم ہانبھی قادر بخش خاکی، رفیق طالب، صاحب خان جمالی، آغا نیاز مگسی، ناطق ناڑیوال، محمد رفیق مغیری، انجم چنہ کندھ کوٹ، میر حسن میر، گلزار حسینی، سینگار محسن، سرور ساقی، نصیب اللہ نصیب، محمود فدا کھوسہ، سید انعام اللہ شاہ، ظفر علی رمز، غلام یاسین ٹنگیل ٹانوری، جلال الدین نادار، توفیق احمد عطش، تنزیلہ بیگم، مسکان، ماہ نور، ذیشان علی ذیشان، محمد جان جمالی، عامر علی آس، واجد حسین روگ، فضل بخش، زوہیب علی، عظیم جعفر آبادی، علی رضا مینگل، غالب علی، محسن ضیاء، آصف علی اور آکاش کمار شامل تھے۔

مشاعرے میں تمام شعراء نے اپنے خوبصورت کلام پیش کیے تاہم بزرگ شاعر رفیق طالب اور نوجوان شعراء گلزار حسینی اور جلال الدین نادار کو بھرپور داد و تحسین سے نوازا گیا۔ اس موقع پر مختلف قراردادیں بھی پاس کرائی گئی فیسٹیول کی 3 روزہ تقریبات کے اختتام پر مختلف شخصیات کو ایوارڈز، کتاب اور اجرک کے تحائف پیش کیے گئے۔ تقریب میں بیوروکریٹ سکندر شاہ ڈپٹی ڈائریکٹر زرعی کالج و یونیورسٹی نصیر آباد سلیم رند، تعلیم دوست شخصیت سکندر مگسی، عمران شاکر رند عبداللہ پندرانی بلوچستان پبلک اسکول و کالج استا محمد کے سربراہ عبدالجبار بنگلزئی، اعجاز علی ساسولی اور اے آروائی نیوز کے کیمرہ مین محمد اسماعیل و دیگر شخصیات کثیر تعداد میں شریک تھیں۔

اس موقع پر شرکاء کی جانب سے تنظیم کے صدر جہانگیر حسین سومرو، عبداللہ بلوچ اسرار شاکر اور ان کے ساتھیوں کی بہترین کاوشوں کو بھرپور سراہا گیا شرکاء کی دلچسپی اور بڑی تعداد میں شرکت کو دیکھ کر اس عزم کا اظہار کیا گیا 2025 میں اس سے بھی بہتر اور پروگرام کیا جائے گا فیسٹیول کے اختتام پر فیسٹیول میں شرکت کرنے کے لئے دور دراز سے آنے والے شرکاء نے بک اسٹال سے بڑی تعداد میں کتابیں خرید کر ایک دوسرے کو بہترین تحفہ یعنی کتاب پیش کرتے رہے اور معزز مہمانوں کے ساتھ یاد گار سیلفیاں بھی بناتے رہے، اس طرح اوستہ محمد کی تاریخ میں پہلی بار اس طرز کا بہترین فیسٹیول بہت ساری یادیں چھوڑ کر اختتام پذیر ہوا۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani