Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. 21 Topon Ki Salami To Banti Hai

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

اکیس توپوں کی سلامی تو بنتی ہے

پیارے پاکستان کے قیام کو آٹھ عشرے ہونے کو ہیں غاصب جابر ظالم فرنگیوں کو یہاں سے جاتے ہوئے بھی پون صدی سے ذیادہ کا عرصہ ہوا ہے اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی بڑی تعداد انگریز کے دور حکومت کو بڑی حسرت ہی سے یاد کرتے ہیں۔ گو کہ اس وقت انگریز کا دور حکومت دیکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد بمشکل چند فیصد ہی زندہ ہیں باقی تو سب کے سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، اس کے باوجود لوگوں کی زبان سے یہی کچھ سننے کو ملتا ہے کہ وہ دور بہت ہی اچھا تھا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جن لوگوں نے برطانیہ کا دور حکومت دیکھا بھی نہیں جبکہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں بھی ان کے بارے میں کوئی خاص نیک نامی یا اچھے کاموں کا تذکرہ نہیں ملتا ہے حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ وہ غاصب جابر ظالم بھی تھے اس بات میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔

اس کے باوجود بھی لوگوں کی بڑی تعداد فرنگی غاصب دور کے حکمرانی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو آج کے حالاتِ ہیں اس سے گوروں کا دور بہت ہی اچھا تھا میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس دور کو دیکھا تو ان کو یہ کہنے کا حق ہے ان کی بات تو کسی حد تک ٹھیک ہوسکتی ہے لیکن جنھوں نے انگریز کا دور دیکھا ہی نہیں پھر بھی اس دور حکمرانی کو بہتر سمجھتے ہیں اس دور کو حسرت سے یاد کرتے ہیں آخر کیوں؟

میرے خیال میں اس کی کئی وجوہات ہوسکتیں ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں جو بھی کام سر انجام دئیے جو بھی فیصلےکئے میرٹ پر معروضی حالات کے عین مطابق انھوں نے ہر کام انتہائی دیانت داری کے ساتھ کیا اس دور میں ملک کے دور افتادہ دشوار ترین علاقوں میں نقل و حمل کے لئے ریلوے نیٹ ورک دریاؤں پر پلوں، بیراجوں کی تعمیر کے علاؤہ مختلف قسم کے فلاحی تعلیمی ادارے صحت کے مراکز قائم کرکے ہمارے آج کے حکمرانوں کے لئے ایک مثال قائم کی۔

اس دور کی بہترین انتظامی نظم و نسق کا یہ عالم تھا، کیا مجال ہے کہ ٹرین مقررہ وقت سے پانچ منٹ لیٹ ہو عام سرکاری ملازمین کو چھوڑیں آفیسر بھی اپنے دفتر دس منٹ تاخیر سے پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا انگریز دور کے سرکاری عمارتوں کی تعمیر اور کمال کی ڈیزائننگ یہی وجہ ایک صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود تقریباً تمام تعمیرات جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہیں، جبکہ بعض عمارتوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے خستہ حالی کا شکار ہوگئے ہیں ایسے ہی موقعہ پر کسی نے کہا تھا

کھنڈرات بتاتے ہیں کہ عمارت عظیم تھی۔۔

عظیم ہونے کی وجہ انگریز سرکار نے جو بھی کام کئے زمینی حقائق دیکھ کر کئے آج ہماری طرح نہیں کہ اسلام آباد یا پھر صوبائی دارالحکومتوں میں ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر زمینی حقائق جانے بغیر اہم فیصلے کئے جاتے ہوں۔ میں یہاں پر ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی آب و ہوا میں بہت فرق ہے کہیں پر برف باری ہو رہی ہوتی ہے تو کسی علاقے میں سورج سےآگ برسا رہا ہوتا ہے کہیں پر لوگ گھر ساؤتھ اوپن تو کہیں پر ویسٹ اوپن گھر کو آئیڈیل سمجھتے ہیں غرض کہ موسم اور ہوا کے رخ پر ہی لوگ گھر آفیسیز بناتے ہیں ہمارے یہاں شادی بیاہ کے پروگرام کاروباری سرگرمیاں ہوں یا تعلیم ہر علاقے میں وہاں کے موسم کے حساب سے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ انگریز سرکار میں یہ خوبی تھی کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہر کام کرتے تھے۔

مجھے سیکریٹری ایجوکیشن بلوچستان کے 14 مئی کے فیصلے نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ اس طرح کے ایک طرف تو وزیر اعلیٰ بلوچستان نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری جانب سیکریٹری تعلیم بلوچستان نے بھی اعلان کیا لیکن ان کا اعلان وزیر اعلیٰ بلوچستان کہ حکم کے برعکس ہے ان کا یہ اعلان کہ بلوچستان کے سمرزون کے علاقوں میں گرمیوں کی تعطیلات 15مئی سے لے کر 15جولائی تک کردی ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ تعلیم دوست نہیں بلکہ تعلیم دشمن فیصلہ سمجھتا ہوں بلوچستان کے سمرزون کے علاقوں میں سوائے کچھ ساحلی علاقوں کے جہاں پر گرمیوں میں اگست کے مہینے سے موسم نسبتا بہتر ہونا شروع ہوتا ہے باقی سمرزون کے نوے فیصد علاقوں میں تو سب سے زیادہ تکلیف دے نا قابل برداشت گرمی اگست ہی میں ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مئی میں ہی گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔

مئی جون پھر بھی صحیح جولائی اگست کی گرمی کو ہمارے ہاں قیامت کی گرمی سے تشہبہ دی جاتی ہے ان ایام میں گرمی سے کمزور ضعیف العمر اور کمسن بچوں کے بیہوش ہونے کے واقعات بہت ہی زیادہ رونما ہوتے ہیں گلوبل وارمنگ کی بدولت بعض علاقوں میں گرمی یا سردی کا دورانیہ بڑھنے تو کہیں پر کم ہونے کی وجہ سے بھی غریب لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر ستمبر کے آخر تک گرمی کی شدت میں کمی ہو جاتی تھی لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے یہ گرمی اکتوبر تک جان نہیں چھوڑتی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے سمرزون میں مئی میں موسم شدید ہو جاتا ہے لیکن اگست کی گرمی بہت ہی خطرناک ہے سیکریٹری ایجوکیشن کے حکم نامے پر مجھ سمیت سمرزون میں آباد ہر باسی کو حیرانگی ہوا ہوگا۔ میں سمجھا شاید کہ وہ اپنا فیصلہ واپس کریں سو ایک آدھا دن انتظار کیا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہیں اقبال نے فرمایا

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہو
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

واقعی میری سادگی ہی ہے کہ میں رہوں بلوچستان میں خیالات سوچ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کا رکھ رہا ہوں جہاں پر وہ نا صرف اپنی غلطی تسلیم کرکے سرعام معافی مانگتے ہیں بلکہ یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں کہ مجھے اس پوسٹ پر رہنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ تو پاکستان اور پھر بلوچستان یہاں پر آپ کے تکلیف دکھ درد کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے ننانوے فیصد بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یہ بچے کسی بھی صورت ٹیوشن یا اکیڈمی افورڈ نہیں کر سکتے اور نہ ہی زیادہ چھٹیوں کے متحمل ہوسکتے ہیں۔

ظاہر ہے چار پانچ ماہ تک تو چھٹیاں کرنا بھی ممکن نہیں ہے لیکن اس کے لئے کچھ اقدامات کرکے چھٹیوں کا دورانیہ کم سے کم کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح کہ یکم مئی سے تیس جون تک سکولوں کا نظام الاوقات کچھ اس طرح ہو صبح چھ سے لے کر گیارہ تک کیا جائے جس سے طلباء اور اساتذہ کرام کے لئے بھی کافی آسانی ہو جائے گی۔ نیز اسکولوں میں سولر اور ٹھنڈے پانی کا خصوصی انتظام کرکے یکم جولائی سے تیس ستمبر تک گرمی کی تعطیلات کئے جائیں اس طرح وقت کی بچت کے ساتھ تعلیمی حرج بھی کم سے کم ہوگئی۔

واضح رہے کہ کئی علاقوں میں مختلف این جی اوز کی جانب سے بعض اسکولوں کو بہترین سولر سسٹم بھی لگا کر دیا گیا تھا جہاں پر پنکھوں کے علاؤہ ریفریجریٹر تک اس سسٹم پر چل رہے تھے لیکن کہیں پر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اس بہترین سسٹم کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا تو کہیں پر چوروں کی نظر ہوگئے اس طرح عدم توجہی کی بدولت لاکھوں روپے ضائع ہو گئے ہیں اس غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad